• To make this place safe and authentic we allow only registered members to participate. Advertising and link posting is not allowed, For Advertising contact admin.

ڈاکٹر زبیدہ سیرنگ اسیر: آپٹکس پر ’بہترین‘ کتاب لکھنے والی پاکستانی ڈاکٹر وطن واپس کیوں لوٹ آئیں؟

’آئرلینڈ میں آئی سرجن (آنکھوں کی جراحی) کی تربیت مکمل ہونے کے بعد شاید میں وہ واحد آئی سرجن ہوں جسے میرے ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ پروفیسر کیگن نے اپنے پاس مستقل کام کرنے کی دعوت دی تھی۔ مگر مجھے پاکستان اور پسماندہ علاقوں کے لیے کام کرنا تھا۔ اس لیے بہت زیادہ مراعات چھوڑ کر اب گلگت بلتستان میں آغا خان ہیلتھ سروسز کے تعاون سے ادارہ چلا رہی ہوں۔‘
یہ کہنا ہے سرجن ڈاکٹر زبیدہ سیرنگ اسیر کا جنھیں آنکھوں کے حوالے سے آپٹیکس میڈ ایزی لاسٹ منٹ ریویو آف کلینکل آپٹکس تحقیقاتی کتاب لکھنے پر عالمی شہرت ملی ہے۔

ڈاکٹر زبیدہ سیرنگ اسیر کون ہیں؟

ڈاکٹر زبیدہ سیرنگ اسیر اس وقت گلگت بلتستان کے دارالحکومت گلگت میں آغا خان ہیلتھ سروسز کے تعاون سے خدمات سر انجام دے رہی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ علاقے کی پہلی خاتون ہیں جنھوں نے آئی سرجری کے لیے بیرون ملک سے اعلیٰ تربیت حاصل کی تھی۔
ان کا تعلق اپر چترال کے علاقے سے ہے۔ یہ مجموعی طور پر پانچ بہنیں اور ایک بھائی ہیں اور ان کے والدین درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں۔
والدین کے تبادلے صوبہ خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں میں ہوتے رہے تھے جس وجہ سے ان کا بچپن اور ابتدائی تعلیم ایبٹ آباد، مردان، رسالپور اور چترال میں ہوئی۔
ان کا کہنا ہے کہ میرے والد شیر ولی خان اسیر ترقی پسند مصنف بھی ہیں۔ ’وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ اگر پاکستان نے ترقی کرنی ہے تو خواتین کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے علاوہ مختلف پیشوں میں اپنی خدمات انجام دینا ہوں گی۔‘
ڈاکٹر زبیدہ سیرنگ اسیر کا کہنا تھا کہ یہ ہی وجہ ہے کہ میں نے جب چترال میں تعلیم حاصل کی تو چترال کے نامی گرامی سکولوں میں پڑھی تھی اور جب اس کے بعد وہ مردان گئیں تو وہاں کے بھی بڑے سکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کی۔
’جب میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا تو میرے والدین نے مجھے پاکستان میں دستیاب سب سے زیادہ نامی گرامی ادارے آغا خان میڈیکل یونیورسٹی میں داخل کروایا تھا۔ جہاں پر میں نے ہاسٹل میں رہائش رکھی تھی۔‘

پسماندہ علاقوں میں آنکھوں کے علاج کی سہولتیں فراہم کرنا

ڈاکٹر زبیدہ سیرنگ اسپر کا کہنا تھا کہ آغا خان یونیورسٹی میں اپنے اساتذہ کی مشاورت سے آغا خان ہیلتھ سروسز کو دعوت دی کہ اگر وہ چاہیں تو میں ان کی مدد سے پاکستان کے پسماندہ علاقوں جیسے گلگت بلتستان، چترال، بلوچستان اور سندھ کے دور دراز علاقوں میں جہاں پر آنکھوں کے علاج کی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں کام کرسکتی ہوں۔
’آغا خان ہیلتھ سروسز نے مجھے اس پر بہت سراہا اور پھر ہم نے باہمی مشورے سے اس وقت گلگت میں کام کا آغاز کردیا ہے۔ گلگت میں ہم انتہائی جدید ترین مشنیری لگانے جارہے ہیں۔ جس پر کام آئندہ چند دن میں مکمل ہوجائے گا۔ جس کے بعد میں اپر چترال اور لوئر چترال میں ایسے مراکز قائم کرنا چاہوں گی جہاں پر پچیدہ آپریشن سمیت تمام سہولتیں میسر ہوں گی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ان کے تجربے میں آرہا ہے کہ پسماندہ اور شمالی علاقوں میں آنکھوں کی بیماریاں دوسرے علاقوں کی نسبت میں زیادہ ہیں۔
’یہ لوگ عموماً دھوپ میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔ دھول ہوتی ہیں۔ پھر آنکھوں کے امراض پر توجہ ہی نہیں دی جاتی، مہنگے ترین علاج اور آپریشن کے لیے وسائل اورسہولتیں ہوتی ہی نہیں ہیں۔ جس وجہ سے یہ مرض بڑھتے جاتے ہیں۔‘
ڈاکٹر زبیدہ سیرنگ اسیر کا کہنا تھا کہ پہلے مرحلے میں گلگت اور چترال میں مراکز قائم کرنے کے بعد وہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں کا رخ کریں گی۔
’میری خواہش ہے کہ پاکستان کے ہر پسماندہ علاقے میں پہنچ کر وہاں کے لوگوں کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کروں اوراس کے ساتھ ساتھ ایسی رسرچ کروں جو اس شعبے میں انقلاب کا سبب بنے۔‘

ڈاکٹر زبیدہ کی کتاب کی مقبولیت

ڈاکٹر زبیدہ سیرنگ اسیر کا کہنا تھا کہ جب وہ آئی سرجن بننے کے لیے زیر تربیت تھیں اس میں ان کا ایک امتحان آپٹکس پر ہوتا ہے جس میں زیر تربیت آئی سرجن کو مائیکروسکوپ، لینز وغیرہ پڑھنا ہوتا ہے۔
’یہ موضوع فزکس سے منسلک ہیں۔ اب طب کی تعلیم کا فزکس سے تعلق کم ہی ہوتا ہے۔ طب سے منسلک لوگوں نے صرف ابتدائی فزکس ہی پڑھی ہوتی ہے۔ ان کو زیادہ فزکس آتی بھی نہیں ہے جس وجہ سے عموماً زیر تربیت آئی سرجنز کو اس میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس میں انتہائی مشکل اشکال اور دیگر مواد ہوتا ہے۔ دلچسپی نہ ہونے کی بنا پر بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
ڈاکٹر زبیدہ سیرنگ اسیر کا کہنا تھا کہ جب وہ اس کو پڑھ رہی تھی تو اس وقت انھوں نے اپنے نوٹسز بنانے شروع کردیے تھے۔
’اشکال کو آسان فہم بنایا، اس کا دیگر مواد بھی آسان کیا تھا۔ جب امتحان دیا تو سوچا کہ اس سے دوسروں کو بھی فائدہ ہونا چاہیے۔ جس پر اپنے خاوند اور آن لائن ایڈیٹر کی مدد لے کر اس کو ایمازون پر اپ لوڈ کردیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے کئی آئی سرجنز نے اس کتاب پر اپنے ریویو دیتے ہوئے اس کو شاندار قرار دیا۔ کئی ایک زیر تربیت آئی سرجن نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ جس کے بعد یہ کتاب دیکھتے دیکھتے ہی مشہور ہوگئی۔
’یہ سب سے زیادہ فائدہ مند زیر تربیت آئی سرجنز کے لیے ہے۔ جب میں اس کو تیار کرررہے تھی تو اندازہ نہیں تھا کہ یہ کتاب اتنی مشہور ہوجائے گئی۔‘

بک اتھارٹی کے مطابق ان کی کتاب 2019 میں ایمازون کے پاس آپٹو میٹری کی کتابوں میں سے سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ہے۔
ایمازون نے 2020 اور 2021 میں ڈاکٹر زبیدہ کی کتاب کو آپٹکس کے موضوع پر چھپنے والی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب قرار دینے کے علاوہ اس کو آپٹکس کے موضوع پر لکھے جانے والی کتابوں میں سے بہترین کتاب قرار دیا گیا ہے۔
کتاب کے بارے میں رائل وکٹوریا آئی اینڈ ایئر ہاسپٹل ڈبلن آئرلینڈ کے سپیشلسٹ رجسٹرار برائے آپٹومالوجی ڈاکٹر کرک اسٹیفینس کا کہنا ہے کہ اس میں بنیادی معاملے کا دوبارہ بڑا واضح اور جامع جائزہ لیا گیا ہے جو کہ نہ صرف زیر تربیت، نئے تربیت یافتہ بلکہ تجربہ کار معالجین کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔
ڈاکٹر امان کرمانی رائل سرے کاؤنٹی ہاسپٹل میں آپٹومالوجی کنسلٹنٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پوسٹ گریجویٹ کرنے والوں کے لیے اس کتاب میں آپٹکس سے متعلق مکمل رہنمائی موجود ہے۔ اس میں موجود مواد، اشکال کو انتہائی آسان کردیا گیا ہے جو ہر ایک کے لیے فائدہ مند ہے۔
پاکستان شعبہ میڈیکل میں خدمات انجام دینے والے بریگیڈیر امجد اکرم جو کہ آپٹومالوجی میں کنسلٹنٹ کی خدمات انجام دیتے ہیں، کا کہنا تھا کہ آپٹکس کو انتہائی خشک اور مشکل مضمون سمجھا جاتا ہے۔ اس پر موجود کتب بھی انتہائی مشکل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر زبیدہ سیرنگ اسیر نے اپنی کتاب میں اس پر انتہائی آسان مواد اور سمجھ میں آنے والا مواد پیش کر کے ایک حیرت انگیز کوشش کی ہے۔​
 
Top