• To make this place safe and authentic we allow only registered members to participate. Advertising and link posting is not allowed, For Advertising contact admin.

.پابلو ایسکوبار: دنیا کے خطرناک ترین شخص کو مارنے کی کوشش کرنے والے کرائے کے قاتل کی کہانی

ch adeel

Member
پیٹر میک الیز


روڈہشیا میں پیٹر میک الیز بھی لڑائی میں شریک رہے
سنہ 1989 میں کرائے کے قاتلوں کی ایک برطانوی ٹیم سکاٹ لینڈ کے باشندے پیٹر میک الیز کی قیادت میں دنیا کے خطرناک ترین شخص کو قتل کرنے کے لیے اس کی مجرمانہ سلطنت میں گئی۔
پابلو ایسکوبار کولمبیا میں ایک منشیات فروش گروہ کے سرغنہ تھے۔ وہ تاریخ کے امیر ترین ولنز میں سے ایک تھے۔
دنیا میں کوکین کی پیدوار اور تقسیم کرنے والوں میں وہ پہلے نمبر پر تھے۔ وہ اُس وقت دنیا میں منشیات کی 80 فیصد تجارت کے ذمہ دار تھے۔
برطانوی فوج کی سپیشل ایئر سروس (ایس اے ایس) کے سابق اہلکار میک الیز کو کولمبیا میں پابلو کے مخالف گروہ نے انھیں مارنے کا کام دیا۔


ایک نئی دستاویزی فلم ’کلنگ ایسکوبار‘ میں اس ناکام مشن کی کہانی اور اس کے پیچھے کارفرما شحص کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
پابلو ایسکوبار

پابلو ایسکوبار دنیا کے سب سے بڑے منشیات فروش گروہ کے سردار تھے
فلمساز ڈیوڈ وٹنی کا کہنا ہے کہ سنہ 1942 میں گلاسگو میں پیدا ہونے والے میک الیز ’ایک پیچیدہ‘ انسان ہیں جو کئی طرح کے اندرونی خلفشار کا شکار ہیں۔ وہ سکاٹ لینڈ کے سب سے بڑے شہر گلاسگو کے نواحی ضلعے ریڈری میں وہاں کے مشہور قید خانے برلینی کے سائے میں پلے بڑھے جہاں ان کے سخت گیر اور متشدد والد اپنا وقت گزارتے۔
فلم میں 78 سالہ مک الیز کہتے ہیں ’مجھے مارنے کی تربیت فوج سے ملی لیکن لڑنے کی فطرت گلاسگو سے آئی۔‘
مک الیز کہتے ہیں کہ انھوں نے 17 سال کی عمر میں فوج میں شمولیت کے لیے گھر چھوڑا تاکہ وہ اپنی جارحیت کو نکلنے کا راستہ دے سکیں۔ انھیں پیراشوٹ رجمنٹ میں شامل کیا گیا جس کے بعد وہ 22 رجمنٹ ایس اے ایس کا حصہ بنے۔
پیٹر میک الیز

پیٹر میک الیز نے جنوبی افریقہ کی فوج میں بھی خدمات انجام دیں
وہ ایس اے ایس کے ساتھ بورنیو میں تعینات رہے جہاں انھوں نے جنگل کی خوفناک لڑائی لڑی۔ اس کے بعد انھوں نے 1969 میں فوج چھوڑ دی جسے وہ اپنی زندگی کا بدترین فیصلہ قرار دیتے ہیں۔
کسی ملازمت سے ہم آہنگ نہ ہو سکنے کی وجہ سے وہ بار بار نوکری بدلتے رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں کوئی راہ دکھائی نہیں دے رہی تھی اور ان کا غصہ اس قدر بدترین ہو گیا تھا کہ انھیں اپنی گرل فرینڈ پر حملے کے جرم میں قید ہو گئی۔
رہائی کے بعد مک الیز نے اپنے فوجی کریئر کا جوش دوبارہ پانے کے لیے انگولا کی خانہ جنگی کے دوران ’کرائے کے قاتل‘ کا کام شروع کر دیا، جس کے بعد انھوں نے روڈیشیا (آج زمبابوے) اور پھر جنوبی افریقہ میں بھی یہی کام کیا۔
ڈوم ٹومکنز سے ان کی ملاقات انگولا میں سنہ 1976 میں ہوئی۔ ٹومکنز باقاعدہ فوجی نہیں تھے لیکن وہ معاہدے کرنا اور اسلحہ فراہم کرنا جانتے تھے۔ غیر متوقع طور پر وہ دونوں بہترین دوست بن گئے اور ایسکوبار کے مشن کے لیے ٹومکنز نے ہی مک الیز سے رابطہ کیا تھا۔
A young Peter McAleese's ID card during his mercenary days in Africa in the Seventies

پیٹر مک الیز کا شناختی کارڈ جب وہ 1970 کی دہائی میں افریقہ میں کرائے کے فوجی تھے
جارج سیلچیڈو جو کہ کولمبیا کے ایک مخالف منشیات فروش گروہ کیلی کا حصہ تھے، اس حملے کے لیے رابطہ کار تھے، انھوں نے ٹومکنز سے کہا کہ وہ اس مشن کے لیے ایک ٹیم بنائیں۔ مک الیز پہلے شخص تھے جنھیں انھوں نے اپنے ساتھ شامل کیا۔
مک الیز کہتے ہیں کہ ’آپ کو پابلو ایسکوبار کے قتل کے لیے اس وقت تک نہیں کہا جا سکتا جب تک آپ کے پاس اس کام کا تجربہ نہ ہو۔‘
’میرے سامنے اس کے قتل میں کوئی اخلاقی رکاوٹ نہیں تھی، میرے لیے یہ قتل نہیں بلکہ محض ایک ہدف تھا۔‘
کیلی گروپ پُراعتماد تھا کہ ایسکوبار کو اُس وقت قتل کیا جا سکتا ہے جب وہ اپنے پرتعیش رینچ ہیسنڈا نیپولیز میں جائیں گے۔
بندوقیں اور بم
اس بڑی سی جاگیر میں ایک چڑیا گھر، پرانی اور پرتعیش گاڑیاں، ایک نجی ہوائی اڈہ اور ایک بُل رنگ موجود تھا۔ میک الیز نے اس جاگیر کے اوپر پرواز کر کے جائزہ لیا اور اتفاق کیا کہ ایسا ممکن ہے۔ یوں مشن طے کر لیا گیا۔
ٹومکنز نے 12 ایسے کرائے کے قاتلوں کو بھرتی کیا جن کے نام یا تو تجویز کیے گئے تھے یا جن کے ساتھ ٹومکنز پہلے کام کر چکے تھے۔
کسٹمز سے گزرنے میں ان کی مدد جارج سیلچیڈو نے کی اور کیلی گروہ نے ان کے قیام کا بندوبست کیا۔ ان سب کو پانچ ہزار ڈالر ماہانہ اور خرچہ ادا کیا جانا تھا لیکن ٹومکنز کو ایک ہزار ڈالر یومیہ دیے جا رہے تھے۔
کولمبیا

کرائے کے قاتل کولمبیا میں تربیت کے دوران
فلم کو اس ویڈیو تک رسائی بھی حاصل تھی جو ٹومکنز نے بنائی تھی جس میں ان لوگوں کو نوٹوں کی گڈیوں سے کھیلتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔
ابتدا میں وہ کیلی شہر میں رہے لیکن خطرہ تھا کہ وہ لوگوں کی نظروں میں آ جائیں گے، اس لیے وہ نظروں سے دور دیہی علاقے میں منتقل ہو گئے جہاں انھیں بھاری تعداد میں اسلحہ فراہم کیا گیا۔
میک الیز کا کہنا تھا ’یہ کرسمس کی طرح تھا۔ جو جو اسلحہ ہمیں چاہیے تھا وہ ہمارے پاس تھا۔‘
کرائے کے قاتلوں کو ان کے مشن کے لیے سخت تربیت کروائی گئی لیکن صرف ٹومکنز اور میک الیز کو معلوم تھا کہ ان کا ہدف کون ہے۔
اس سے پہلے کہ دوسروں کو بتایا جاتا، گروپ میں سے ایک شخص نے اس مشن کو چھوڑ دیا اور اسے گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔ اس نے اپنی کہانی اخبارات کو فروخت کی لیکن نام نہیں بتائے اور نہ ہی آپریشن کی تفصیلات بتائیں۔
حملے کا وقت جب قریب آیا تو ان لوگوں نے اپنی تربیتی کام جنگوں میں منتقل کر دیا تاکہ اسلحے اور بموں کی آوازیں نہ سنی جا سکیں۔
ہیلی کاپٹر

کرائے کے فوجیوں کی ترییت کی ایک اور اصل تصویر
حملے کے منصوبے کے مطابق دو ہیلی کاپٹرز نے ہیسنڈا نیپولیز کے اندر جانا تھا اور اس دوران کرائے کے قاتلوں نے ایسکوبار کے انتہائی سخت پہرے میں زبردستی گھس کر منشیات کے سلطان کو قتل کر کے اس کا سر ٹرافی کے طور پر واپس لانا تھا۔
جب انھیں ایک مخبر سے خبر ملی کہ ایسکوبار وہاں موجود ہیں، تو وہ اپنا شکار کرنے کے لیے نکلے لیکن حملہ کبھی نہیں ہونا تھا۔
جو ہیلی کاپٹر مک الیز اور ٹومکنز کو لے کر جا رہا تھا بادلوں کی وجہ سے نیچی پرواز کرنے کی بنا پر اینڈیز کے پہاڑی سلسلے میں حادثے کا شکار ہو گیا جس میں پائلٹ ہلاک ہو گیا۔
خدا سے وعدے
اس ہیلی کاپٹر میں سوار دوسرے لوگ بچ گئے لیکن میک الیز پہاڑی علاقوں سے اترتے ہوئے شدید زخمی ہو گئے۔ وہ تین دن تک شدید تکلیف میں پڑے رہے اور اس کے بعد انھیں وہاں سے نکالا گیا۔
ایسکوبار کو جب حملے کے منصوبے کا پتا چلا تو انھوں نے اپنے لوگوں کو پہاڑ پر انھیں ڈھونڈنے کے لیے روانہ کیا۔
مک الیز کہتے ہیں کہ ’اگر پابلو مجھے پکڑ لیتا تو مجھے انتہائی طویل، مرحلہ وار اور درد ناک موت کا سامنا کرنا پڑتا۔‘
لیکن وہ بچ نکلے اور انھوں نے زخمی حالت میں پہاڑوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں خدا سے جو وعدے کیے تھے انھیں پورا کرنے کی کوشش کی۔
پیٹر میک الیز

پیٹر مک الیز کہتے ہیں کہ انھیں اپنی عسکری زندگی پر کوئی ندامت نہیں
مک الیز اعتراف کرتے ہیں کہ وہ ایک ’انتہائی برے اور گندے آدمی‘ تھے اور انھیں یہ احساس ہو گیا کہ انھیں بدلنا پڑے گا لیکن انھیں جنگ کے میدانوں میں کیے گئے کاموں پر ندامت نہیں تھی بلکہ وہ بحیثیت والد اور شوہر اپنی ناکامی پر شرمندہ تھے۔
انھوں نے کہا کہ ’میں بہت سی چیزوں پر شرمندہ ہوں لیکن ان میں ایک بھی عسکری زندگی سے تعلق نہیں رکھتی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ انھیں 78 سال کی عمر میں اب آخرکار سکون نصیب ہو گیا ہے۔ دریں اثنا پابلو ایسکوبار سنہ 1993 میں حکام سے چھپتے ہوئے گولی کا شکار بن گئے۔
 
Top