• To make this place safe and authentic we allow only registered members to participate. Advertising and link posting is not allowed, For Advertising contact admin.

Ways to transform our weeknesses to strenghts (اپنی محرومی کو طاقت بنائیں)

Danish Raza

Active Member
اپنی محرومی کو طاقت بنائیں
ناکامی کی وجہ معذوری نہیں، مایوسی ہے

ہرگزرتے دن کے ساتھ وہ دکھ اور کرب کے سمندر میں ڈوبتا چلا جا رہا تھا۔ آٹھ برس کی عمر میں اس نے دل برداشتہ ہوکر خودکشی کی کوشش کی لیکن اس میں ناکام رہا۔ دوبارہ خودکشی کرنے کی ٹھانی لیکن اس بار اسے اپنے والدین کا خیال آیا اور اس نے ارادہ ترک کردیا۔ میرے لیپ ٹاپ پر اس کی تصویر ہے اور وہ تصویر میری زندگی کو سب سے زیادہ متحرک کرنے والی تصویر ہے۔سوچیے کسی شخص کے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں نہ ہوں…تو اس کی زندگی کیسی ہوگی؟ یہ تصویر نِک ووئی چیچ کی ہے۔ وہ جب پیدا ہوا تو اس کے ہاتھ اور پیر نہیں تھے۔ دوسرے لفظوں میں وہ دنیا کا معذور ترین بچہ تھا۔ لیکن آج نک دنیا کے متحرک ترین اور مؤثر ترین لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔ لاکھوں لوگ اس کی زندگی بدلنے والی بیسٹ سیلر کتاب "Unstoppable" سے فائدہ اُٹھا چکے ہیں۔ امریکہ میں وہ ایک غیر تجارتی تنظیم "Life without limbs" کا صدر ہے۔ وہ ایک موٹیویشنل کمپنی "Attitude is Attitude" کا مالک بھی ہے ۔ بے شمار ادارے اور یونیورسٹیاں نک کے رہنمائی فراہم کرنے والے لیکچرز سے متاثر ہوکر اپنی کارکردگی کو بہتر کرچکے ہیں۔ صرف تیس سال کی عمر میں اُس کا شماردنیا کے کامیاب ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کس طرح دنیا کا معذور ترین انسان دنیا کا کامیاب ترین انسان بنا؟کس بات نے اسے اتنا متحرک کیا کہ آج وہ لاکھوں لوگوں کو تحریک دینے کا سبب بن گیا؟ ان سب سوالات کا جواب ہے ’’اس کی محرومی اس کی طاقت بن گئی۔‘‘

جی ہاں اس نے اپنی محرومی کو طاقت میں بدل دیا۔ دنیا کا ہربڑا شخص، ہر بڑا ہیرو، ، ہر بڑا رہنما اور ہر بڑا فنکار اپنی محرومی کو طاقت میں بدل دیتا ہے کیوںکہ وہ یہ جانتا ہے کہ محرومی درحقیقت اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی سپیشل ٹریٹمنٹ کا ثبوت ہے۔انک نے فیصلہ کرلیا کہ جس چیز کو وہ نہیں بدل سکتا اس کا گلہ نہیں کرے گا۔ اس دنیا میں اربوں انسان ہیں، جو صحیح سلامت ہیں، لیکن ان اربوں میں نک جیسا کوئی نہیں۔ نک نے اُنیس سال کی عمر میں پہلی تقریر کی اور اب تک وہ ہزاروں طالب علموں ، اساتذہ، بزنس مین، ڈاکٹر، سیاستدانوں اور مذہبی رہنماؤں کو لیکچر دے چکا ہے اور وہ اپنے ہر لیکچر میں ثابت کرتا ہے کہ ’’اگر خدا تعالیٰ بغیر ہاتھوں اور پیروں والے شخص سے اتنا بڑا کام لے سکتا ہے تو جن کے ہاتھ اور ٹانگیں سلامت ہیں، ان سے کام کیوں نہیں لے سکتا۔‘‘
نک کہتا ہے کہ دراصل دنیا میں آکر ہمیں ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ہم بھی دنیا میں موجود ہیں اور یہ کام کرنے کے لیے ہمیں کچھ کرکے دکھانا پڑتا ہے۔ وہ کام کیجیے جو دنیا میں آپ کی موجودگی کا اظہار بنے۔ اپنے کام پر اپنی مہر لگائیے کہ یہ کام میں نے کیا ہے۔ نک کا ماننا ہے کہ ہمیں معجزوں کی تلاش کی بجائے خود ایک معجزہ بننا چاہیے تاکہ دنیا حیران ہوجائے کہ اتنی محرومی اورتکلیفوں کے باوجود بھی کوئی کامیاب ہوسکتا ہے۔

آپ گو گل پر جا کر نک کی تصویر دیکھیں یا یو ٹیو ب پر اس کی ویڈیو ملاحظہ فرمائیں۔ آپ حیران ہوجائیں گے کہ اپاہج ہونے کے باوجود اس کے چہرے پر خوشی ہے اور آنکھوں سے اُمید ٹپک رہی ہے۔ کیوںکہ نک کا ماننا ہے کہ مقصد والی زندگی میں خود ترسی نہیں ہوتی۔ خودترسی ایک عذاب ہے اور یہ عذاب ان پر نازل ہوتا ہے جو اپنی محرومی کو گلہ بنا کر دوسروں کے سامنے روتے دھوتے رہتے ہیں۔ نک کے احساسات اور جذبات اس کی شخصیت سے چھلک کر دوسروں کو اس کاگرویدہ بنا دیتے ہیں۔ نک کی خاموشی بھی بولتی ہے کیوںکہ دنیا کی بہترین کمیونیکیشن بغیر الفاظ کے ہوتی ہے۔ نک دراصل ایک شکرگزار انسان ہے ۔اس لیے وہ اکثر کہتا ہے کہ ’’میں نے آج تک کسی شکر گزار کو پریشان نہیں دیکھا اور نہ کسی پریشان کو شکرگزار۔‘‘ شکر گزاری منہ سے ’’شکر الحمد للہ‘‘ کہنے سے نہیں ہوتی بلکہ یہ احساسات اور عمل سے ظاہر ہوتی ہے۔ شکرگزار انسان خوش ہوتا ہے۔ اسے زندگی سے محبت ہوتی ہے اور یہی جذبہ وہ دوسروں میں بانٹتا پھرتا ہے۔ نک کا ایک جملہ لوگوں کے لیے بہت بڑی تحریک کا سبب بنتا ہے اور وہ جملہ یہ ہے کہ ’’ممکن ہے اس وقت آپ کو کوئی راستہ نظر نہ آ رہا ہو لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کے لیے راستہ موجود ہی نہیں…یقیناً کوئی نہ کوئی راستہ اور کوئی نہ کوئی منزل آپ سے زیادہ آپ کا انتظار کر رہی ہے۔‘‘

اتنی بڑی کامیابی حاصل کرنے سے بہت پہلے نک اس حقیقت کو جان چکا تھا کہ ایک بار تو کیا سو بار نا کام ہونا بھی آپ کو کامیاب ہونے سے نہیں روک سکتا۔ کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ اعزاز دیا ہے کہ وہ اپنی ہار کو جیت میں بدل سکتا ہے۔ نک کہتا ہے کہ آپ ہاتھوں کے بغیر ہوسکتے ہیں اور ٹانگوں کے بغیر بھی لیکن ولولے کے بغیر آپ کچھ بھی نہیں ہیں کیوںکہ ولولہ آپ کی حدود زندگی کو لا محدود حد تک مؤثر بنا دیتا ہے۔ جس طرح محض ایک بیج میں موجود ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں سیب کے درخت اور سیب نہیں گنے جا سکتے اسی طرح ولولے کے ساتھ کیے گئے کاموں کے نتائج بھی لامحدود ہوجاتے ہیں۔ آپ کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ آپ کے کام کے اثرات کہاں کہاں تک پہنچ رہے ہیں۔

نک کہتا ہے کہ تبدیلی کا انتظار مت کیجیے۔ بلکہ خود تبدیلی بن جائیے کیوںکہ بصیرت کے بغیر، ہمت کے بغیر اور محنت کے بغیر زندگی ‘زندگی نہیں۔ اپنی تقدیرکو اپنی محنت اور اپنے ارادے سے بنائیے، نہیں تو دوسرے آپ کی تقدیر کی لگام پکڑ کر آپ کو اُلو بنا دیں گے۔ یاد رکھیے آپ کی تقدیر آپ کے ارادوں کے لمحوں میں بنتی ہے۔ جب آپ کسی بات،کسی شخص، کسی تحریر، کسی کہانی یا کسی واقعہ سے اتنے متاثر ہوں کہ آپ کی آنکھوں میں آنسو آجائیں تو فوراً کچھ کرنے کا عزم کریں۔ بغیر انتظار کیے کچھ کرکے دکھانے کا فیصلہ کریں اور اسی وقت اللہ کریم سے دعا کریں۔ کبھی نہ بھولیے کہ اللہ تعالیٰ محروم کی زیادہ سنتا ہے، اللہ تعالیٰ کی اس پر نظر ضرور پڑتی ہے جس کی آنکھوں میں آنسو ہوں۔ جب کوئی اس کا بندہ بے قرار یا پریشان ہوکر آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتا ہے تو رب ِکعبہ کی قسم اللہ تعالیٰ اس کی طرف ایسے متوجہ ہوتا ہے جیسے ایک ماں اپنے لاڈلے بچے کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پکار کے اور دعا کے صلے میں اس کے دل میں الہام کرتا ہے کہ وہ ارادہ کرے، عزم کرے، کچھ کرکے دکھانے کا، اور پھر اللہ تعالیٰ اس کو ہمت کی دولت سے نواز دیتا ہے۔ میاں محمد بخش کے ایک پنجابی شعر کا مفہوم ہے کہ جسے میدان میںاللہ تعالیٰ کھڑا کردے اسے کون گرا سکتا ہے۔ نک جانتا تھا کہ اللہ صرف محبت ہے ا ور محبت کبھی بھی تباہی نہیں بن سکتی۔

نک ایمان کی حد تک مانتا ہے کہ زندگی کے بعض زخم، تکلیفیں اور چوٹیں بہت اچھی ہوتی ہیں۔یہ آپ کو کیا سے کیا بنا دیتی ہیں، آپ کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ در اصل ہر مصیبت میں فائدے کے کئی بیج چھپے ہوتے ہیں۔ ہر محرومی در اصل رب تعالیٰ کی عنایت ہوتی ہے لیکن ہمیں وہ عنایت نظر نہیں آ رہی ہوتی۔ اگر ہم اس کو قبول کرلیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا سمجھ کر گلہ نہ کریں تو وہ رحمت بن جاتی ہیں۔ ہم گلہ کرتے ہیں اور گلہ دوری پیدا کرتا ہے حالانکہ ہمیں شکر کرنا چاہیے کہ اللہ ہم سے کوئی کام لینا چاہ رہا ہے۔
نک کو بہت سے لوگ برا بھلا کہتے تھے لیکن نک جانتا تھا کہ ’’جن کی وجہ سے دنیا میں کوئی فرق پڑتا ہے وہ برُا نہیں مناتے اور جو برُا مناتے ہیں ان کی وجہ سے دنیا میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ ہمیں کامیاب ہونے کے لیے اپنی برداشت بڑھانی ہوتی ہے کیوںکہ دنیا کے عظیم لوگوں میں برداشت کرنے کی طاقت عام لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ وہ لوگوں کے مذاق اور آوازوں کے جواب زبان سے نہیں دیتے، بلکہ وہ اپنے کام سے ثابت کردیتے ہیں کہ تم نہیں جانتے میں کتنا سپیشل انسان ہوں‘‘۔

اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے، آپ کو بے شمار صحیح سلامت لوگ سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آئیں گے۔ لیکن آپ کو اپنی ہی سوسائٹی میں نک جیسے چند خود دار اور باہمت لوگ بھی ملیں گے، جو نیچے والا ہاتھ نہیں بنتے بلکہ اوپر والا ہاتھ بن کر ایک مثال قائم کرتے ہیں ۔ دنیا والوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے ہیں کہ ’’ہاں میں محروم تھا…ہاں میرے پاس یونیفارم نہیں تھا…ہاں مجھے میلوں پیدل چل کرا سکول جانا پڑتا تھا…ہاں میرے بیگ میں کتابیں بھی مکمل نہیں ہوتی تھیں اور نہ ہی میرے پاس دینے کے لیے فیس ہوتی تھی مگر آج تم میری تحریر پڑھ کر ہمت لے رہے ہو اور یہی میری کامیابی ہے۔‘‘

اگر آپ کو بھی اپنی محرومی کو طاقت میں بدلنا ہے توآپ کو نک کے انداز میں سوچنا ہوگا۔ آپ کو ماننا پڑے گا کہ نک صحیح کہتا ’’دنیا کا سب سے بڑا جھوٹا وہ شخص ہے جو آپ سے یہ کہتا ہے کہ تم کچھ نہیں کرسکتے کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے کسی بڑے کام کے لیے تمھیں دنیا میں بھیجا ہے…تمھارے بغیر دنیا نامکمل تھی۔ تم آئے تو آج یہ مکمل ہوئی…کتنا بڑا جھوٹا ہوگا وہ شخص جواللہ تعالیٰ کو سچا نہیں مان رہا ۔‘‘

 

Danish Raza

Active Member
English Translation

Ways to trasform our weeknesses to strenghts:

The reason for failure is not disability, but frustration"

With each passing day, he sank into a sea of sorrow and grief. At the age of eight, he tried to commit suicide but failed. He decided to commit suicide again but this time he thought of his parents and gave up. I have a picture of him on my laptop and that picture is the most moving picture of my life. Imagine if a person did not have both hands and both feet; then what would his life be like? This photo is by Nick Wei Chich. He did not have arms or legs when he was born. In other words, he was the most disabled child in the world. But today Nick is one of the most dynamic and influential people in the world. Millions of people have benefited from his life-changing best-selling book, Unstoppable. In the United States, he is the president of Life without limbs, a non-profit organization. He also owns a motivational company, Attitude is Attitude. Numerous institutions and universities have improved their performance, inspired by Nick's lectures. At just 30, he is one of the most successful people in the world.
The question is, how did the world's most crippled man become the world's most successful man? What motivated him so much that he has inspired millions today? The answer to all these questions is "his deprivation became his strength."

Yes, he turned his deprivation into power. Every great person in the world, every great hero, every great leader and every great artist turns his deprivation into power because he knows that deprivation is in fact proof of God's special treatment with him. He will not complain about what he cannot change. There are billions of people in this world who are in perfect health, but none of these billions is like Nick. Nick gave his first speech at the age of nineteen and so far he has lectured to thousands of students, teachers, businessmen, doctors, politicians and religious leaders and in each of his lectures he proves that “If God Almighty He can take such a big job from a person with hands and feet, so why can't he take work from those whose hands and legs are safe.
Nick says that in fact we have to come into the world and prove that we are also in the world and to do that we have to do something. Do things that reflect your presence in the world. Put your stamp on your work that I have done. Nick believes that instead of looking for miracles, we should become a miracle ourselves so that the world will be amazed that one can succeed in spite of so much deprivation and suffering.

You can go to Google and watch Nick's picture or watch his video on YouTube. You will be amazed that despite his disability, there is happiness on his face and hope is dripping from his eyes. Because Nick believes that there is no such thing as self-loathing in a purposeful life. Self-loathing is a torment and this torment descends on those who weep in front of others, embracing their deprivation. Nick's feelings and emotions overflow with his personality and make others believe in him. Nick's silence also speaks because the best communication in the world is without words. Nick is actually a grateful person. That's why he often says, "I have never seen a grateful person upset or thankful for someone upset." Not by saying "thank you, thank God." Rather, it is manifested by feelings and actions. A grateful person is happy. He loves life and he shares this passion with others. One of Nick's words caused a great deal of excitement for the people, and that is, "You may not see a way out at the moment, but that doesn't mean you don't have a way." Of course, one way or another is waiting for you more than you. ”

Long before such a great success, Nick knew the fact that even a single failure would not stop you from succeeding. Because Allah Almighty has given man the honor that he can turn his defeat into victory. Nick says you can be without arms and without legs, but without zeal you are nothing because zeal makes your life limitless. Just as the thousands, millions and millions of apple trees and apples in a single seed cannot be counted, so the results of the work done with zeal are also infinite. You have no idea where the impact of your work is going.

Nick says don't wait for change. Rather, change yourself because without insight, without courage and without hard work, life is not life. Make your destiny with your hard work and your intention, otherwise others will take the reins of your destiny and make you an owl. Remember your destiny is formed in the moments of your intentions. When you are so moved by something, a person, a writing, a story or an event that tears come to your eyes, resolve to do something immediately. Decide to do something without waiting and pray to God at the same time. Never forget that Allah Almighty listens more to the deprived, Allah Almighty looks at the one who has tears in his eyes. When one of his servants looks up at the sky in a state of restlessness or distress, I swear by the Lord of the Ka'bah that Allah draws attention to him.
 
اپنی محرومی کو طاقت بنائیں
ناکامی کی وجہ معذوری نہیں، مایوسی ہے

ہرگزرتے دن کے ساتھ وہ دکھ اور کرب کے سمندر میں ڈوبتا چلا جا رہا تھا۔ آٹھ برس کی عمر میں اس نے دل برداشتہ ہوکر خودکشی کی کوشش کی لیکن اس میں ناکام رہا۔ دوبارہ خودکشی کرنے کی ٹھانی لیکن اس بار اسے اپنے والدین کا خیال آیا اور اس نے ارادہ ترک کردیا۔ میرے لیپ ٹاپ پر اس کی تصویر ہے اور وہ تصویر میری زندگی کو سب سے زیادہ متحرک کرنے والی تصویر ہے۔سوچیے کسی شخص کے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں نہ ہوں…تو اس کی زندگی کیسی ہوگی؟ یہ تصویر نِک ووئی چیچ کی ہے۔ وہ جب پیدا ہوا تو اس کے ہاتھ اور پیر نہیں تھے۔ دوسرے لفظوں میں وہ دنیا کا معذور ترین بچہ تھا۔ لیکن آج نک دنیا کے متحرک ترین اور مؤثر ترین لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔ لاکھوں لوگ اس کی زندگی بدلنے والی بیسٹ سیلر کتاب "Unstoppable" سے فائدہ اُٹھا چکے ہیں۔ امریکہ میں وہ ایک غیر تجارتی تنظیم "Life without limbs" کا صدر ہے۔ وہ ایک موٹیویشنل کمپنی "Attitude is Attitude" کا مالک بھی ہے ۔ بے شمار ادارے اور یونیورسٹیاں نک کے رہنمائی فراہم کرنے والے لیکچرز سے متاثر ہوکر اپنی کارکردگی کو بہتر کرچکے ہیں۔ صرف تیس سال کی عمر میں اُس کا شماردنیا کے کامیاب ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کس طرح دنیا کا معذور ترین انسان دنیا کا کامیاب ترین انسان بنا؟کس بات نے اسے اتنا متحرک کیا کہ آج وہ لاکھوں لوگوں کو تحریک دینے کا سبب بن گیا؟ ان سب سوالات کا جواب ہے ’’اس کی محرومی اس کی طاقت بن گئی۔‘‘

جی ہاں اس نے اپنی محرومی کو طاقت میں بدل دیا۔ دنیا کا ہربڑا شخص، ہر بڑا ہیرو، ، ہر بڑا رہنما اور ہر بڑا فنکار اپنی محرومی کو طاقت میں بدل دیتا ہے کیوںکہ وہ یہ جانتا ہے کہ محرومی درحقیقت اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی سپیشل ٹریٹمنٹ کا ثبوت ہے۔انک نے فیصلہ کرلیا کہ جس چیز کو وہ نہیں بدل سکتا اس کا گلہ نہیں کرے گا۔ اس دنیا میں اربوں انسان ہیں، جو صحیح سلامت ہیں، لیکن ان اربوں میں نک جیسا کوئی نہیں۔ نک نے اُنیس سال کی عمر میں پہلی تقریر کی اور اب تک وہ ہزاروں طالب علموں ، اساتذہ، بزنس مین، ڈاکٹر، سیاستدانوں اور مذہبی رہنماؤں کو لیکچر دے چکا ہے اور وہ اپنے ہر لیکچر میں ثابت کرتا ہے کہ ’’اگر خدا تعالیٰ بغیر ہاتھوں اور پیروں والے شخص سے اتنا بڑا کام لے سکتا ہے تو جن کے ہاتھ اور ٹانگیں سلامت ہیں، ان سے کام کیوں نہیں لے سکتا۔‘‘
نک کہتا ہے کہ دراصل دنیا میں آکر ہمیں ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ہم بھی دنیا میں موجود ہیں اور یہ کام کرنے کے لیے ہمیں کچھ کرکے دکھانا پڑتا ہے۔ وہ کام کیجیے جو دنیا میں آپ کی موجودگی کا اظہار بنے۔ اپنے کام پر اپنی مہر لگائیے کہ یہ کام میں نے کیا ہے۔ نک کا ماننا ہے کہ ہمیں معجزوں کی تلاش کی بجائے خود ایک معجزہ بننا چاہیے تاکہ دنیا حیران ہوجائے کہ اتنی محرومی اورتکلیفوں کے باوجود بھی کوئی کامیاب ہوسکتا ہے۔

آپ گو گل پر جا کر نک کی تصویر دیکھیں یا یو ٹیو ب پر اس کی ویڈیو ملاحظہ فرمائیں۔ آپ حیران ہوجائیں گے کہ اپاہج ہونے کے باوجود اس کے چہرے پر خوشی ہے اور آنکھوں سے اُمید ٹپک رہی ہے۔ کیوںکہ نک کا ماننا ہے کہ مقصد والی زندگی میں خود ترسی نہیں ہوتی۔ خودترسی ایک عذاب ہے اور یہ عذاب ان پر نازل ہوتا ہے جو اپنی محرومی کو گلہ بنا کر دوسروں کے سامنے روتے دھوتے رہتے ہیں۔ نک کے احساسات اور جذبات اس کی شخصیت سے چھلک کر دوسروں کو اس کاگرویدہ بنا دیتے ہیں۔ نک کی خاموشی بھی بولتی ہے کیوںکہ دنیا کی بہترین کمیونیکیشن بغیر الفاظ کے ہوتی ہے۔ نک دراصل ایک شکرگزار انسان ہے ۔اس لیے وہ اکثر کہتا ہے کہ ’’میں نے آج تک کسی شکر گزار کو پریشان نہیں دیکھا اور نہ کسی پریشان کو شکرگزار۔‘‘ شکر گزاری منہ سے ’’شکر الحمد للہ‘‘ کہنے سے نہیں ہوتی بلکہ یہ احساسات اور عمل سے ظاہر ہوتی ہے۔ شکرگزار انسان خوش ہوتا ہے۔ اسے زندگی سے محبت ہوتی ہے اور یہی جذبہ وہ دوسروں میں بانٹتا پھرتا ہے۔ نک کا ایک جملہ لوگوں کے لیے بہت بڑی تحریک کا سبب بنتا ہے اور وہ جملہ یہ ہے کہ ’’ممکن ہے اس وقت آپ کو کوئی راستہ نظر نہ آ رہا ہو لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کے لیے راستہ موجود ہی نہیں…یقیناً کوئی نہ کوئی راستہ اور کوئی نہ کوئی منزل آپ سے زیادہ آپ کا انتظار کر رہی ہے۔‘‘

اتنی بڑی کامیابی حاصل کرنے سے بہت پہلے نک اس حقیقت کو جان چکا تھا کہ ایک بار تو کیا سو بار نا کام ہونا بھی آپ کو کامیاب ہونے سے نہیں روک سکتا۔ کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ اعزاز دیا ہے کہ وہ اپنی ہار کو جیت میں بدل سکتا ہے۔ نک کہتا ہے کہ آپ ہاتھوں کے بغیر ہوسکتے ہیں اور ٹانگوں کے بغیر بھی لیکن ولولے کے بغیر آپ کچھ بھی نہیں ہیں کیوںکہ ولولہ آپ کی حدود زندگی کو لا محدود حد تک مؤثر بنا دیتا ہے۔ جس طرح محض ایک بیج میں موجود ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں سیب کے درخت اور سیب نہیں گنے جا سکتے اسی طرح ولولے کے ساتھ کیے گئے کاموں کے نتائج بھی لامحدود ہوجاتے ہیں۔ آپ کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ آپ کے کام کے اثرات کہاں کہاں تک پہنچ رہے ہیں۔

نک کہتا ہے کہ تبدیلی کا انتظار مت کیجیے۔ بلکہ خود تبدیلی بن جائیے کیوںکہ بصیرت کے بغیر، ہمت کے بغیر اور محنت کے بغیر زندگی ‘زندگی نہیں۔ اپنی تقدیرکو اپنی محنت اور اپنے ارادے سے بنائیے، نہیں تو دوسرے آپ کی تقدیر کی لگام پکڑ کر آپ کو اُلو بنا دیں گے۔ یاد رکھیے آپ کی تقدیر آپ کے ارادوں کے لمحوں میں بنتی ہے۔ جب آپ کسی بات،کسی شخص، کسی تحریر، کسی کہانی یا کسی واقعہ سے اتنے متاثر ہوں کہ آپ کی آنکھوں میں آنسو آجائیں تو فوراً کچھ کرنے کا عزم کریں۔ بغیر انتظار کیے کچھ کرکے دکھانے کا فیصلہ کریں اور اسی وقت اللہ کریم سے دعا کریں۔ کبھی نہ بھولیے کہ اللہ تعالیٰ محروم کی زیادہ سنتا ہے، اللہ تعالیٰ کی اس پر نظر ضرور پڑتی ہے جس کی آنکھوں میں آنسو ہوں۔ جب کوئی اس کا بندہ بے قرار یا پریشان ہوکر آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتا ہے تو رب ِکعبہ کی قسم اللہ تعالیٰ اس کی طرف ایسے متوجہ ہوتا ہے جیسے ایک ماں اپنے لاڈلے بچے کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پکار کے اور دعا کے صلے میں اس کے دل میں الہام کرتا ہے کہ وہ ارادہ کرے، عزم کرے، کچھ کرکے دکھانے کا، اور پھر اللہ تعالیٰ اس کو ہمت کی دولت سے نواز دیتا ہے۔ میاں محمد بخش کے ایک پنجابی شعر کا مفہوم ہے کہ جسے میدان میںاللہ تعالیٰ کھڑا کردے اسے کون گرا سکتا ہے۔ نک جانتا تھا کہ اللہ صرف محبت ہے ا ور محبت کبھی بھی تباہی نہیں بن سکتی۔

نک ایمان کی حد تک مانتا ہے کہ زندگی کے بعض زخم، تکلیفیں اور چوٹیں بہت اچھی ہوتی ہیں۔یہ آپ کو کیا سے کیا بنا دیتی ہیں، آپ کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ در اصل ہر مصیبت میں فائدے کے کئی بیج چھپے ہوتے ہیں۔ ہر محرومی در اصل رب تعالیٰ کی عنایت ہوتی ہے لیکن ہمیں وہ عنایت نظر نہیں آ رہی ہوتی۔ اگر ہم اس کو قبول کرلیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا سمجھ کر گلہ نہ کریں تو وہ رحمت بن جاتی ہیں۔ ہم گلہ کرتے ہیں اور گلہ دوری پیدا کرتا ہے حالانکہ ہمیں شکر کرنا چاہیے کہ اللہ ہم سے کوئی کام لینا چاہ رہا ہے۔
نک کو بہت سے لوگ برا بھلا کہتے تھے لیکن نک جانتا تھا کہ ’’جن کی وجہ سے دنیا میں کوئی فرق پڑتا ہے وہ برُا نہیں مناتے اور جو برُا مناتے ہیں ان کی وجہ سے دنیا میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ ہمیں کامیاب ہونے کے لیے اپنی برداشت بڑھانی ہوتی ہے کیوںکہ دنیا کے عظیم لوگوں میں برداشت کرنے کی طاقت عام لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ وہ لوگوں کے مذاق اور آوازوں کے جواب زبان سے نہیں دیتے، بلکہ وہ اپنے کام سے ثابت کردیتے ہیں کہ تم نہیں جانتے میں کتنا سپیشل انسان ہوں‘‘۔

اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے، آپ کو بے شمار صحیح سلامت لوگ سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آئیں گے۔ لیکن آپ کو اپنی ہی سوسائٹی میں نک جیسے چند خود دار اور باہمت لوگ بھی ملیں گے، جو نیچے والا ہاتھ نہیں بنتے بلکہ اوپر والا ہاتھ بن کر ایک مثال قائم کرتے ہیں ۔ دنیا والوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے ہیں کہ ’’ہاں میں محروم تھا…ہاں میرے پاس یونیفارم نہیں تھا…ہاں مجھے میلوں پیدل چل کرا سکول جانا پڑتا تھا…ہاں میرے بیگ میں کتابیں بھی مکمل نہیں ہوتی تھیں اور نہ ہی میرے پاس دینے کے لیے فیس ہوتی تھی مگر آج تم میری تحریر پڑھ کر ہمت لے رہے ہو اور یہی میری کامیابی ہے۔‘‘

اگر آپ کو بھی اپنی محرومی کو طاقت میں بدلنا ہے توآپ کو نک کے انداز میں سوچنا ہوگا۔ آپ کو ماننا پڑے گا کہ نک صحیح کہتا ’’دنیا کا سب سے بڑا جھوٹا وہ شخص ہے جو آپ سے یہ کہتا ہے کہ تم کچھ نہیں کرسکتے کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے کسی بڑے کام کے لیے تمھیں دنیا میں بھیجا ہے…تمھارے بغیر دنیا نامکمل تھی۔ تم آئے تو آج یہ مکمل ہوئی…کتنا بڑا جھوٹا ہوگا وہ شخص جواللہ تعالیٰ کو سچا نہیں مان رہا ۔‘‘

very nice
 
اپنی محرومی کو طاقت بنائیں
ناکامی کی وجہ معذوری نہیں، مایوسی ہے

ہرگزرتے دن کے ساتھ وہ دکھ اور کرب کے سمندر میں ڈوبتا چلا جا رہا تھا۔ آٹھ برس کی عمر میں اس نے دل برداشتہ ہوکر خودکشی کی کوشش کی لیکن اس میں ناکام رہا۔ دوبارہ خودکشی کرنے کی ٹھانی لیکن اس بار اسے اپنے والدین کا خیال آیا اور اس نے ارادہ ترک کردیا۔ میرے لیپ ٹاپ پر اس کی تصویر ہے اور وہ تصویر میری زندگی کو سب سے زیادہ متحرک کرنے والی تصویر ہے۔سوچیے کسی شخص کے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں نہ ہوں…تو اس کی زندگی کیسی ہوگی؟ یہ تصویر نِک ووئی چیچ کی ہے۔ وہ جب پیدا ہوا تو اس کے ہاتھ اور پیر نہیں تھے۔ دوسرے لفظوں میں وہ دنیا کا معذور ترین بچہ تھا۔ لیکن آج نک دنیا کے متحرک ترین اور مؤثر ترین لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔ لاکھوں لوگ اس کی زندگی بدلنے والی بیسٹ سیلر کتاب "Unstoppable" سے فائدہ اُٹھا چکے ہیں۔ امریکہ میں وہ ایک غیر تجارتی تنظیم "Life without limbs" کا صدر ہے۔ وہ ایک موٹیویشنل کمپنی "Attitude is Attitude" کا مالک بھی ہے ۔ بے شمار ادارے اور یونیورسٹیاں نک کے رہنمائی فراہم کرنے والے لیکچرز سے متاثر ہوکر اپنی کارکردگی کو بہتر کرچکے ہیں۔ صرف تیس سال کی عمر میں اُس کا شماردنیا کے کامیاب ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کس طرح دنیا کا معذور ترین انسان دنیا کا کامیاب ترین انسان بنا؟کس بات نے اسے اتنا متحرک کیا کہ آج وہ لاکھوں لوگوں کو تحریک دینے کا سبب بن گیا؟ ان سب سوالات کا جواب ہے ’’اس کی محرومی اس کی طاقت بن گئی۔‘‘

جی ہاں اس نے اپنی محرومی کو طاقت میں بدل دیا۔ دنیا کا ہربڑا شخص، ہر بڑا ہیرو، ، ہر بڑا رہنما اور ہر بڑا فنکار اپنی محرومی کو طاقت میں بدل دیتا ہے کیوںکہ وہ یہ جانتا ہے کہ محرومی درحقیقت اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی سپیشل ٹریٹمنٹ کا ثبوت ہے۔انک نے فیصلہ کرلیا کہ جس چیز کو وہ نہیں بدل سکتا اس کا گلہ نہیں کرے گا۔ اس دنیا میں اربوں انسان ہیں، جو صحیح سلامت ہیں، لیکن ان اربوں میں نک جیسا کوئی نہیں۔ نک نے اُنیس سال کی عمر میں پہلی تقریر کی اور اب تک وہ ہزاروں طالب علموں ، اساتذہ، بزنس مین، ڈاکٹر، سیاستدانوں اور مذہبی رہنماؤں کو لیکچر دے چکا ہے اور وہ اپنے ہر لیکچر میں ثابت کرتا ہے کہ ’’اگر خدا تعالیٰ بغیر ہاتھوں اور پیروں والے شخص سے اتنا بڑا کام لے سکتا ہے تو جن کے ہاتھ اور ٹانگیں سلامت ہیں، ان سے کام کیوں نہیں لے سکتا۔‘‘
نک کہتا ہے کہ دراصل دنیا میں آکر ہمیں ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ہم بھی دنیا میں موجود ہیں اور یہ کام کرنے کے لیے ہمیں کچھ کرکے دکھانا پڑتا ہے۔ وہ کام کیجیے جو دنیا میں آپ کی موجودگی کا اظہار بنے۔ اپنے کام پر اپنی مہر لگائیے کہ یہ کام میں نے کیا ہے۔ نک کا ماننا ہے کہ ہمیں معجزوں کی تلاش کی بجائے خود ایک معجزہ بننا چاہیے تاکہ دنیا حیران ہوجائے کہ اتنی محرومی اورتکلیفوں کے باوجود بھی کوئی کامیاب ہوسکتا ہے۔

آپ گو گل پر جا کر نک کی تصویر دیکھیں یا یو ٹیو ب پر اس کی ویڈیو ملاحظہ فرمائیں۔ آپ حیران ہوجائیں گے کہ اپاہج ہونے کے باوجود اس کے چہرے پر خوشی ہے اور آنکھوں سے اُمید ٹپک رہی ہے۔ کیوںکہ نک کا ماننا ہے کہ مقصد والی زندگی میں خود ترسی نہیں ہوتی۔ خودترسی ایک عذاب ہے اور یہ عذاب ان پر نازل ہوتا ہے جو اپنی محرومی کو گلہ بنا کر دوسروں کے سامنے روتے دھوتے رہتے ہیں۔ نک کے احساسات اور جذبات اس کی شخصیت سے چھلک کر دوسروں کو اس کاگرویدہ بنا دیتے ہیں۔ نک کی خاموشی بھی بولتی ہے کیوںکہ دنیا کی بہترین کمیونیکیشن بغیر الفاظ کے ہوتی ہے۔ نک دراصل ایک شکرگزار انسان ہے ۔اس لیے وہ اکثر کہتا ہے کہ ’’میں نے آج تک کسی شکر گزار کو پریشان نہیں دیکھا اور نہ کسی پریشان کو شکرگزار۔‘‘ شکر گزاری منہ سے ’’شکر الحمد للہ‘‘ کہنے سے نہیں ہوتی بلکہ یہ احساسات اور عمل سے ظاہر ہوتی ہے۔ شکرگزار انسان خوش ہوتا ہے۔ اسے زندگی سے محبت ہوتی ہے اور یہی جذبہ وہ دوسروں میں بانٹتا پھرتا ہے۔ نک کا ایک جملہ لوگوں کے لیے بہت بڑی تحریک کا سبب بنتا ہے اور وہ جملہ یہ ہے کہ ’’ممکن ہے اس وقت آپ کو کوئی راستہ نظر نہ آ رہا ہو لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کے لیے راستہ موجود ہی نہیں…یقیناً کوئی نہ کوئی راستہ اور کوئی نہ کوئی منزل آپ سے زیادہ آپ کا انتظار کر رہی ہے۔‘‘

اتنی بڑی کامیابی حاصل کرنے سے بہت پہلے نک اس حقیقت کو جان چکا تھا کہ ایک بار تو کیا سو بار نا کام ہونا بھی آپ کو کامیاب ہونے سے نہیں روک سکتا۔ کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ اعزاز دیا ہے کہ وہ اپنی ہار کو جیت میں بدل سکتا ہے۔ نک کہتا ہے کہ آپ ہاتھوں کے بغیر ہوسکتے ہیں اور ٹانگوں کے بغیر بھی لیکن ولولے کے بغیر آپ کچھ بھی نہیں ہیں کیوںکہ ولولہ آپ کی حدود زندگی کو لا محدود حد تک مؤثر بنا دیتا ہے۔ جس طرح محض ایک بیج میں موجود ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں سیب کے درخت اور سیب نہیں گنے جا سکتے اسی طرح ولولے کے ساتھ کیے گئے کاموں کے نتائج بھی لامحدود ہوجاتے ہیں۔ آپ کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ آپ کے کام کے اثرات کہاں کہاں تک پہنچ رہے ہیں۔

نک کہتا ہے کہ تبدیلی کا انتظار مت کیجیے۔ بلکہ خود تبدیلی بن جائیے کیوںکہ بصیرت کے بغیر، ہمت کے بغیر اور محنت کے بغیر زندگی ‘زندگی نہیں۔ اپنی تقدیرکو اپنی محنت اور اپنے ارادے سے بنائیے، نہیں تو دوسرے آپ کی تقدیر کی لگام پکڑ کر آپ کو اُلو بنا دیں گے۔ یاد رکھیے آپ کی تقدیر آپ کے ارادوں کے لمحوں میں بنتی ہے۔ جب آپ کسی بات،کسی شخص، کسی تحریر، کسی کہانی یا کسی واقعہ سے اتنے متاثر ہوں کہ آپ کی آنکھوں میں آنسو آجائیں تو فوراً کچھ کرنے کا عزم کریں۔ بغیر انتظار کیے کچھ کرکے دکھانے کا فیصلہ کریں اور اسی وقت اللہ کریم سے دعا کریں۔ کبھی نہ بھولیے کہ اللہ تعالیٰ محروم کی زیادہ سنتا ہے، اللہ تعالیٰ کی اس پر نظر ضرور پڑتی ہے جس کی آنکھوں میں آنسو ہوں۔ جب کوئی اس کا بندہ بے قرار یا پریشان ہوکر آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتا ہے تو رب ِکعبہ کی قسم اللہ تعالیٰ اس کی طرف ایسے متوجہ ہوتا ہے جیسے ایک ماں اپنے لاڈلے بچے کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پکار کے اور دعا کے صلے میں اس کے دل میں الہام کرتا ہے کہ وہ ارادہ کرے، عزم کرے، کچھ کرکے دکھانے کا، اور پھر اللہ تعالیٰ اس کو ہمت کی دولت سے نواز دیتا ہے۔ میاں محمد بخش کے ایک پنجابی شعر کا مفہوم ہے کہ جسے میدان میںاللہ تعالیٰ کھڑا کردے اسے کون گرا سکتا ہے۔ نک جانتا تھا کہ اللہ صرف محبت ہے ا ور محبت کبھی بھی تباہی نہیں بن سکتی۔

نک ایمان کی حد تک مانتا ہے کہ زندگی کے بعض زخم، تکلیفیں اور چوٹیں بہت اچھی ہوتی ہیں۔یہ آپ کو کیا سے کیا بنا دیتی ہیں، آپ کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ در اصل ہر مصیبت میں فائدے کے کئی بیج چھپے ہوتے ہیں۔ ہر محرومی در اصل رب تعالیٰ کی عنایت ہوتی ہے لیکن ہمیں وہ عنایت نظر نہیں آ رہی ہوتی۔ اگر ہم اس کو قبول کرلیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا سمجھ کر گلہ نہ کریں تو وہ رحمت بن جاتی ہیں۔ ہم گلہ کرتے ہیں اور گلہ دوری پیدا کرتا ہے حالانکہ ہمیں شکر کرنا چاہیے کہ اللہ ہم سے کوئی کام لینا چاہ رہا ہے۔
نک کو بہت سے لوگ برا بھلا کہتے تھے لیکن نک جانتا تھا کہ ’’جن کی وجہ سے دنیا میں کوئی فرق پڑتا ہے وہ برُا نہیں مناتے اور جو برُا مناتے ہیں ان کی وجہ سے دنیا میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ ہمیں کامیاب ہونے کے لیے اپنی برداشت بڑھانی ہوتی ہے کیوںکہ دنیا کے عظیم لوگوں میں برداشت کرنے کی طاقت عام لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ وہ لوگوں کے مذاق اور آوازوں کے جواب زبان سے نہیں دیتے، بلکہ وہ اپنے کام سے ثابت کردیتے ہیں کہ تم نہیں جانتے میں کتنا سپیشل انسان ہوں‘‘۔

اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے، آپ کو بے شمار صحیح سلامت لوگ سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آئیں گے۔ لیکن آپ کو اپنی ہی سوسائٹی میں نک جیسے چند خود دار اور باہمت لوگ بھی ملیں گے، جو نیچے والا ہاتھ نہیں بنتے بلکہ اوپر والا ہاتھ بن کر ایک مثال قائم کرتے ہیں ۔ دنیا والوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے ہیں کہ ’’ہاں میں محروم تھا…ہاں میرے پاس یونیفارم نہیں تھا…ہاں مجھے میلوں پیدل چل کرا سکول جانا پڑتا تھا…ہاں میرے بیگ میں کتابیں بھی مکمل نہیں ہوتی تھیں اور نہ ہی میرے پاس دینے کے لیے فیس ہوتی تھی مگر آج تم میری تحریر پڑھ کر ہمت لے رہے ہو اور یہی میری کامیابی ہے۔‘‘

اگر آپ کو بھی اپنی محرومی کو طاقت میں بدلنا ہے توآپ کو نک کے انداز میں سوچنا ہوگا۔ آپ کو ماننا پڑے گا کہ نک صحیح کہتا ’’دنیا کا سب سے بڑا جھوٹا وہ شخص ہے جو آپ سے یہ کہتا ہے کہ تم کچھ نہیں کرسکتے کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے کسی بڑے کام کے لیے تمھیں دنیا میں بھیجا ہے…تمھارے بغیر دنیا نامکمل تھی۔ تم آئے تو آج یہ مکمل ہوئی…کتنا بڑا جھوٹا ہوگا وہ شخص جواللہ تعالیٰ کو سچا نہیں مان رہا ۔‘‘

zabardast
 
Top