Irtaza Haider
Member
" مدد کا نرالا انداز "
آج ایک قصائی کی دوکان پر بیٹھا تھا کہ ایک بزرگ سفید پوش چہرے پر داڑھی, سر پر ٹوپی, آنکھوں پر عینک لگائے دکان میں داخل ہوئے دکان پر کافی بھیڑ تھی لوگوں کی آوازوں سے دکان گونج رہی تھی بھائی ایک کلو گوشت دینا بھائی تین کلو گوشت دینا جیسے ھی وہ بزرگ داخل ہوا قصائی سارے گاہکوں کو چھوڑ کر اس بزرگ سے مخاطب ہوا "جی ؟"
"آدھا کلو گوشت" چاہیئے بزرگ نے کہا۔
قصائی نے فوراً بہترین گوشت کا ٹکڑا کاٹا اور بوٹی بنا کر دے دی بزرگ نے پیسے دینے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو قصائی نے لینے سے انکار کر دیا وہ بزرگ بولا "جاوید بھائی! آپ ہمیشہ ایسا ھی کرتے ہیں" قصائی مسکرا دیا اور بزرگ دوکان سے باہر نکل گیا۔
لوگ گلے شکوے کرنے لگے کہ ھم کب سے کھڑے ھیں اور قصائی کو چربی چڑھی ہے گاہک کی قدر نہیں ہے میرا تجسس بڑھا میں دوکان خالی ھونے کاانتظار کرنے لگا گاہک نپٹا کر جیسے ہی قصائی فارغ ہوا میں نے کہا دو کلوگوشت چاہیے۔
پھر میں نے پوچھا "ابھی جو بزرگ آپ کی دکان سے گوشت لے کر گئے آپ کا کوئی قریبی رشتہ دار لگتا ہے سارے گاہک چھوڑ کرآپ نے سب سے پہلے اُس کو گوشت دیا؟"
قصائی مسکرایا اور بولا "جی نہیں"
میں تعجب میں پڑ گیااور پوچھا "تو پھر ؟"
قصائی بولا "وہ ہماری مسجد کے امام صاحب ہیں جو شخص ہماری آخرت بنانے کی فکر میں رہتا ہے اور جس نے ہماری نمازوں کی ذمہ داری لے رکھی ہے اور ہمارے بچوں کو قرآن اور حدیث کا درس دیتا ہے کیا دنیا میں میں اس کے ساتھ اچھامعاملہ نہ کروں؟"
میں نے کہا "اوہ!! اچھا مگر تم نے ان سے پیسے کیوں نہیں لیے؟"
قصائی پھر مسکرایا اور بولا "کیا تمھیں نہیں پتا مسجدوں کے اماموں کو کیا دیا جاتا ہے اتنے کا تو نقاش بھائی لوگ مہینے میں سگریٹ پی جاتے ہیں"
میں سوچنے لگا واقعی بات میں تو دم ہے
قصائی پھر بولا "نقاش بھائی یہ ہماری قوم کا سرمایہ ہیں ان کو بچانا ہماری ذمہ داری ہے بازار کی تمام دوکان والوں نے یہ متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ امام صاحب سے کوئی پیسہ نہیں لے گا صرف میں ہی نہیں یہ نائی، یہ جنرل سٹور والا یہ ٹیلر وہ ڈاکٹر صاحب کریانے والا دودھ والا اور سبزی والا کوئی ان سے پیسے نہی لیتا نقاش بھائی اتنا تو ہم کر ہی سکتے ہیں" اور پھر مسکرا کر کہا " نقاش بھائی آدھا کلو گوشت کے بدلے جنت زیادہ منافع کا سودا ہے یہ لیجیے آپ کے گوشت کی تھیلی۔"
میں نے پیسے قصائی کی طرف بڑھائے اور کہا "پر بھائی میں تو جاب کرتا ہوں کاش میں بھی آپ لوگوں کی طرح ان مولوی صاحب کی کوئی مدد کرسکتا"
قصائی نے کہا "بہت آسان ہے سامنے گلی میں امام صاحب نے سائیکل بننے کے لیے دی ہے آپ دوکان والے کو چپکے سے بل ادا کر دیجئے اور اس سے کہہ دیجئے کہ امام صاحب سے پیسے نہ لے۔" میں مسکرایا اور دوکان سے نکل گیا اس قصائی سے آج مدد کا ایک نیا سبق جو سیکھا تھا...
یاد رہے کہ ان مولویوں میں بھی ہماری طرح کچھ برائیاں ہوں گی لیکن یہ اس انٹرنیٹ کے دور میں ہمارے دین کے ورثہ کے مکمل محافظ ہیں۔ جیسے چودہ سو سال پہلے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ امانت اس امت کے علماء کو دی تھی. بنی اسرائیل کے علماء کی طرح انہوں نے دین کا سودا نہیں کیا.آئیں ہم بھی دینداروں کی اسی طرح مدد کریں جیسے قصائی نے سکھائی۔۔۔
Last edited: