• To make this place safe and authentic we allow only registered members to participate. Advertising and link posting is not allowed, For Advertising contact admin.

چین میں جاری وہ ’دو اجلاس‘ جن میں سپر پاور بننے کا لائحہ عمل ترتیب دیا جا رہا ہے

Ibrahim Yousaf

Active Member
چین کے دارالحکومت بیجنگ میں اس ماہ ملک کی سیاسی اشرافیہ کے پانچ ہزار سے زیادہ افراد قوم کی مقننہ اور اعلیٰ ترین مشاورتی اداروں کے سالانہ اجلاسوں میں شرکت کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔
عام زبان میں ان کو ’دو اجلاس‘ کہا جاتا ہے اور اس میں چین کی پیپلز پولیٹکل کنسلٹیٹیو کانفرنس (سی پی پی سی سی) اور نیشنل پیپلز کانگرس (این پی سی) کے ارکان آنے والے سال کے لیے مرکزی حکومت کی پالیسی اور منصوبے مرتب کرتے ہیں۔
اس سال سی پی پی سی سی کا اجلاس چار مارچ سے دس مارچ تک منعقد ہو رہا ہے جب کہ این پی سی کا اجلاس 5 مارچ کو شروع ہوا ہے۔
رواں سال سنہ 2021 سے چین کے چودہویں پنج سالہ پلان کا آغاز بھی ہو رہا ہے اور اس برس کیمونسٹ پارٹی کے قیام کے سو سال بھی مکمل ہو رہے ہیں۔


چین


دو اجلاس ہیں کیا؟
عام طور پر مارچ کے مہینے میں منعقد ہونے والے یہ اجلاس چین کے سیاسی کلینڈر میں سب سے اہم سمجھے جاتے ہیں۔ ان اجلاسوں میں اہم قانون سازی، قواعد و ضوابط، سرکاری رپورٹس، بجٹ اور مرکزی حکومت کے آنے والے سال کے ایجنڈے سمیت اہم حکومتی امور پر توجہ مرکوز رہتی ہے۔
اس سال ان اجلاسوں میں توجہ کا مرکز چین کا اگلا پنج سالہ منصوبہ اور اس کے طویل المدتی معاشی اور سماجی ترقی کے اہداف ہیں جو 2035 تک حاصل کیے جانے ہیں۔
اگلے ساڑھے چھ دنوں میں سی پی پی سی سی اور این پی سی کے الگ الگ لیکن ایک ہی وقت میں اجلاس منعقد ہوں گے۔
سی پی پی سی سی ملک کا اعلی ترین مشاورتی ادارہ ہے۔ کیمونسٹ جماعت کے مندوبین کے علاوہ اس میں 2200 ارکان دیگر جماعتوں اور سماجی شعبوں سے تعلق رکھنے والے جن میں سائنس، کھیل، ثقافت اور تجارت شامل ہیں وہ بھی شرکت کرتے ہیں۔
ملکی آئین کے مطابق این پی سی سب سے بااختیار ادارہ ہے لیکن بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اسے اکثر ’ربڑ سٹیمپ‘ یا حکومت کے ہر اقدام پر مہر تصدیق ثبت کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔
اس میں ملک کے تمام صوبوں، خود مختار علاقوں، مرکز کے زیر انتظام مونسپل اداروں، ہانگ کانگ اور مکاؤ کے انتظامی خطوں اور ملکی کی مسلح افواج سے تعلق رکھنے والے تین ہزار ’ڈپٹیز‘ یا مندوبین شرکت کرتے ہیں۔
چین


کیا توقع کی جا سکتی ہے؟
اس سال اجلاس میں چین کا چودہواں پنج سالہ منصوبہ زیر غور آئے گا اور اس کے علاوہ ملک کے طویل المعیاد منصوبوں پر بحث کی جائے گی جو 2035 تک مکمل کیے جانے ہیں۔ اس سال کے اجلاس کے ایجنڈے میں معاشی ترقی، ٹیکنالوجی میں نئی پیش رفت اور موسمیاتی تبدیلی جیسے امور بھی شامل ہیں۔
اس سال کے اجلاس میں متوقع طور پر ترجیح، ہانگ کانگ کے انتخابی طریقہ کار کو از سر نو ترتیب دینے کو دی جائے گی۔
جدید ترین ٹیکنالوجی میں خود انحصاری کا حصول اور مقامی طور پر طلب میں اضافہ کرنا جو چین کی حال ہی میں اختیار کردہ ترقی کی ’ڈیول سرکولیشن‘ کی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کی بنیاد مقامی اور غیر ملکی منڈیوں کو ایک دوسرے سے مربوط کرنا بھی اس اجلاس کا مرکزی نکتہ ہو گا۔
رواں پنج سالہ منصوبے میں پہلی مرتبہ جدید ٹیکنالوجی کو ملک کی معاشی ترقی کا ستون بنانے کے موضوع کو ایک علیحدہ باب کے طور پر شامل کیا گیا ہے جو ایک ایسا معاملہ ہے جس پر چین اور امریکہ کے درمیاں شدید مسابقت پائی جاتی ہے۔
چین نے ٹیکنالوجی میں جدت اور خود انحصاری کو اگلے پندرہ برس کے لیے ایک قومی ترجیح بنایا ہے۔
چین


یہ اجلاس کیوں اہم ہیں؟
سنہ 2021 کے ’دو اجلاس‘ ایک ایسے وقت منعقد کیے جا رہے ہیں جب کووڈ 19 کی وبا سے ہونے والے معاشی نقصان کے بعد ملک ایک مرتب پھر تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ کووڈ 19 کی وبا کے دوران چین کی شرح نمو متاثر ضرور ہوئی تھی لیکن وہ دنیا کے بیشتر ملکوں کی طرح منفی میں نہیں گئی تھی۔
چین کی عالمی ساکھ کو کووڈ 19 اور ہانگ کانگ کے قومی سلامتی کے قوانین جیسے امور کی وجہ سے کافی نقصان پہنچا تھا۔ اس کے تعلقات برطانیہ، امریکہ اور انڈیا سے کشیدگی کا شکار ہو گئے تھے۔
چین کے دنیا کے کئی ملکوں سے سفارتی تعلقات کے تناؤ اور کشیدگی کے پس منظر میں ہونے والے ان ’دو اجلاسوں‘ کو ایسی نظر سے دیکھا جا رہا تھا کہ ان کے ذریعے دیگر ممالک سے باہمی تعلقات کے حوالے اہم پیغامات دیے جائیں گے۔
چین کے سرکاری خبر رساں ادارے ژنوا میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ ’چین کے لیے دو اجلاسوں کے ذریعے بیرونی دنیا کو یہ پیغام دینا کہ وہ کس طرح بیرونی دنیا سے ماحولیاتی تبدیلی جیسے اہم امور پر تعاون کرے گا، ایک موثر طریقہ کے علاوہ مغربی ممالک کے سیاست دانوں کی طرف چین کی ترقی کو روکنے کے لیے افواہیں اور بدگمانیاں پیدا کرنے کی کوششوں کا جواب بھی ہے۔
اس سال کے اجلاس اس لحاظ بھی اہم ہیں کہ وہ صدر شی جی پنگ کے کردار کو کووڈ 19 کی وبا کے بعد کے دور میں مستحکم کریں گے۔ یہ اجلاس اس بات کا بھی موقع فراہم کریں گے کہ صدر ژئی جی پنگ کی میراث، ملک کے مستقبل اور چین کی عالمی ساکھ کے لیے طویل المعیاد اہداف بھی مقرر کریں۔
ان دو اجلاسوں کے لیے سنہ 2020 میں کووڈ 19 کی وجہ سے جو احتیاطی تدابیر وضح کی گئیں تھیں وہ ہی لاگو رہیں گی۔ یہ دونوں اجلاسوں کو تقریباً ایک ہفتے کے لیے محدود کر دیا گیا جبکہ کہ عام طور پر یہ پندرہ دن تک جاری رہتے ہیں۔
چین


چین کے ذرائع ابلاغ کیا کہتے ہیں؟
چین کے مرکزی دہارے کے ذرائع ابلاغ ان اجلاسوں کو وسیع پیمانے پر جگہ دے رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں ان اجلاس کے بارے خبریں، تبصرے اور ویڈیو مواد بھی شائع کیا جا رہا جس میں ان کی اہمیت اور ان کے دائرہ کار کو بیان کیا جا رہا ہے۔
اخبارات جرائد اور نشریاتی ادارے ان اجلاس کے بارے میں کافی پرامید ہیں کہ کووڈ 19 کی وبا کے بعد یہ قوم میں نیا جذبہ اور نیا حوصلہ پیدا کرنے میں مدد دیں گے۔
ہانگ کانگ میں ذرائع ابلاغ کی دلچسپی ان اجلاسوں میں پپش ہونے والی انتخابی اصلاحات میں ہے جن کے منظور ہونے کے بعد ہانگ کانگ پر چین کو اور زیادہ اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔
ژنوا میں چینی زبان میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا گیا کہ ’ہم عظمت کی نئی بلندیاں چھونے کے منتظر ہیں۔‘
اس مضمون میں مزید کہا گیا کہ دو اجلاس اور چوہویں پنج سالہ منصوبے کی دستاویز کے ساتھ ہم ایک نئے سفر کا آغاز کرنے والے ہیں۔
ژنوا نے یہ اعلان بھی کیا کہ وہ ان دو اجلاسوں کا تجربے دینے کے لیے فائیو جی ٹیکنالوجی کا استعمال کرے گی۔ اس ایپ کے ذریعے صارفین نہ صرف براہِ راست نشریات دیکھ سکیں گے بلکہ تبادلہ خیالات کے اجلاسوں میں شرکت بھی کر سکتے ہیں۔
بین الاقوامی برادری کی طرف سے چین میں ہونے والے ان اجلاسوں میں بہت دلچسپی ظاہر کی جا رہی ہے۔ چین کی ایک ویب سائٹ کے مطابق بہت سے ملکوں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ پنج سالہ منصوبے کے دوران چین نے سماجی اور معاشی ترقی کے وہ ریکارڈ قائم کیے جو دنیا کے لیے حیران کن تھے اور وہ اس سال کے اجلاسوں سے بھی اتنے ہی حوصہ افزا نتائج دیکھنا چاہتے ہیں۔
چین


کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان پیپلز ڈیلی نے یکم مارچ کو لکھا کہ ’بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی نگاہوں میں اس سال کے اجلاس طے شدہ تاریخیوں پر ہو رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین نے کووڈ 19 کی وبا کے خلاف اچھے نتائج حاصل کر لیے ہیں اور اس کی معیشت بتدریج اپنے معمول پر آ رہی ہے۔‘
اسی مضمون میں مزید کہا گیا کہ ’ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ وبا ابھی بھی دنیا کے مختلف ملکوں میں پھیل رہی ہے اور بین الاقوامی سطح پر عدم استحکام بڑھ رہا ہے۔‘
اس مضمون میں کہا گیا کہ ’ہمارے ملکی کی معاشی ترقی کی بحالی ابھی بھی مستحکم نہیں ہو سکی ہے اور معاشی اور سماجی ترقی کی راہ میں بہت سے مشکلات اور رکاوٹیں حائل ہیں۔‘
کیمونسٹ پارٹی کے ترجمان پیپلز ڈیلی نے سمندر پار چینیوں کی ان اجلاسوں سے وابستہ توقعات پورا کرنے کے لیے اشاعت کا اہتمام کیا ہے۔
سرکاری نگرانی میں شائع ہونے والے گلوبل ٹائمز کے مطابق سنہ 2021 کے دو اجلاس معاشی ترقی کے وسیع تر اور جرت مندانہ اہداف مقرر کریں گے۔
یکم مارچ کو ہانگ کانگ کے جریدے ساوتھ چائنہ مورنگ پوسٹ نے اطلاع دی تھی کہ این پی سی متوقع طور پر کئی اصلاحات منظور کرے گی جن کے نتیجے میں حب الوطن عناصر ہانگ کانگ میں برسر اقتدار آ جائیں گے جب کہ تمام چین مخالف عناصر ختم ہو جائیں گے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا کہ مجموعی طور پر انتخابی اصلاحات سے ہانگ کانگ میں رہنے والے عام آدمی کی حکومتی امور اور قانون سازی میں آواز دب جائے گی۔ یہ تبدیلیاں اس بات کو یقینی بنائیں گی چیف ایگزیکٹیو کے انتخابات سے کوئی غیر متوقع نتائج سامنے نہیں آئیں گے۔
ایک اور بڑے اخبار سینڈنڈر نے اطلاع دی کہ مجوزہ اصلاحات سے جمہوریت نواز کارکناں پر دباؤ بڑھے گا جو پہلے ہی ہانگ کانگ میں سیاسی اصلاحات سے اختلاف کے باعث سرکاری عتاب کا شکار ہیں۔
 
Top