• To make this place safe and authentic we allow only registered members to participate. Advertising and link posting is not allowed, For Advertising contact admin.

قابلیت ہی کامیابی


قابلیت ہی کامیابی

ہر شخص میں پیدائشی طور پر خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ پیدائشی خوبیاں ٹیلنٹ کے زمرے میں آتی ہیں۔ ایسی تما م چیزیں جن کو سیکھا اور استعمال میں لایا جا سکتا ہے صلاحیتیں کہلاتی ہیں۔ یہ صلاحیتیں پیدائشی نہیں ہوتیں۔ خوش قسمتی یہ ہے کہ پیدائشی طور پر ملنے والی خوبیاں اگرپالش ہو جائیں تو کامیابی ملنا آسان ہوجاتی ہے۔اسی طرح جب انسان کو اپنی صلاحیتوں کا پتہ نہ ہو تو وہ اپنے آپ کو کم تر سمجھنے لگتا ہے ۔ کم تر سمجھنے کی وجہ سے اس کی قوتِ ارادی میں کمی آنا شروع ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں وہ ناکام ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنی صلاحیتوں سے نوازا ہے کہ وہ ایک وقت میں کئی کام کر سکتا ہے۔صلاحیت پیدا کرنے کے تین طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ یہ کہ صلاحیت پیدا کرنے کاشوق ہو۔بہت سے لوگوں میں صلاحیت پیدا کرنے کی خواہش تو ہوتی ہے لیکن اس میں وہ شدت نہیں ہوتی ۔ صلاحیت تب ہی پیدا ہو سکتی ہے جب خواہش شدید ہو۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کیسے سیکھا جائے؟ سیکھنے کے لیے مطالعہ ہو سکتا ہے،انٹرنیٹ سے مددلی جا سکتی ہے،مینٹور سے خدمات لی جا سکتی ہیں، کوچنگ سنٹر سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔صلاحیت پیدا کرنے کاتیسرا طریقہ پریکٹس ہے۔ صلاحیت پیدا کرنے کے بعد پریکٹس سے اس میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ایک نوجوان کے اندر کمانے سے زیادہ سیکھنے کا جذبہ ہونا چاہیے۔ جوانی سیکھنے اور صلاحیت بڑھانے کی عمر ہوتی ہے۔ جوانی میں سیکھا ہوا کام آگے چل کر بڑا نتیجہ دیتا ہے۔
ایک طالب علم تعلیم سے فارغ ہو کر جب عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو اسے بہت سی مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں جو کچھ پڑھایا جا تا ہے اور عملی زندگی میں جن حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان میں مطابقت نہیں پائی جاتی۔ اس کی وجہ تعلیمی اداروں میں پڑھانے وا لوں کا متعلقہ مضامین میں عملی تجربے کا نہ ہونا ہے۔ طلباء کے پاس جی۔ پی۔ اے اور ڈگریاں تو ہوتی ہیں لیکن ان کے پاس وہ وزڈم (wisdom) نہیں ہوتا جو ان کو عملی زندگی میں فائدہ د ے سکے اور ان کی زندگیوں کو بہتر بنا سکے۔ ہمارے ہاں طلباء کو عملی زندگی کا وزڈم دینے اور صلاحیت پیدا کرنے کے لیے مختلف اداروں میں کچھ عرصہ کے لیے انٹرن شپ کرائی جاتی ہے۔ یہ عام طور پر طلباء کے تعلیمی کیرئیر کے آخری سال ہوتے ہیں۔ طالب علموں کو انٹرن شپ سے جوفوائد ملنے چاہیے وہ بھی نہیں مل رہے۔ اس کی وجہ بھی تعلیمی ادارے ہیں جو طلباء کو انٹرن شپ کی صحیح اہمیت نہیں بتاتے۔ جب بچے کو انٹرن شپ کے فوائد معلوم نہیں ہوتے تو وہ اس کو اہمیت نہیں دیتے۔ وہ سرٹیفکیٹ توحاصل کر لیتاہے لیکن سیکھنے والی چیزوں کو سیکھ نہیں پاتا۔ بہت کم بچے ایسے ہوتے ہیں جو انٹرن شپ سے صحیح فوائد حاصل کرتے ہیں۔ جو ادارے انٹرن شپ کرواتے ہیں زیادہ تروہ بھی ذمہ داری قبول نہیں کرتے۔ بہت کم ادارے ایسے ہیں جوانٹرن شپ کے فوائد کو سمجھتے ہیں اس لیے وہ طلباء کو صحیح طریقے سے سکھاتے ہیں اس کے نتیجے میں انہیں اچھی اور قابل افرادی قوّت مل جا تی ہے۔
جا ب کے ساتھ ساتھ صلاحیتوں کو نکھارتے رہنا چاہیے۔صلاحیتیں پیدا کرنے کے لیے وقت چاہیے۔ وقت بچانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس مینٹور(Mentor) سے سیکھا جائے جس نے مشکلات کاسامنا کرنے کے باوجود کامیابی حاصل کی ہو۔ اس مینٹورمیں دو شرطیں ہونی چاہئیں۔ ایک یہ کہ وہ مخلص ہو اور دوسرا وہ قابل ہو۔اگر وہ خود ناامید ہے اور ڈیپریس رہتا ہے تو وہ بچوں کو بھی ناامید کر دے گا۔ زمانہ جدید میں کامیابی اور ناکامی دونوں کی رفتار بہت تیز ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ ایک شخص کو کامیاب ہونے کے لیے پندرہ سے بیس سال چاہئیں جبکہ آ ج وہی کامیابی پانچ سالوں میں ممکن ہو گئی ہے۔ٹیکنالوجی کی وجہ سے ایک وقت میں کئی کام کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ اگر کوئی قابل ہے اور باصلاحیت بھی تو اس کو کسی ٹی وی چینل کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ خود سوشل میڈیا پر اپنا چینل بنائے اور اپنی ویڈیوز اپ لوڈ کرے ۔کامیابی خودبخود اس کے پیچھے آئے گی۔کام کا لیول نہیں ہوتا ،معیار کا لیول ہوتا ہے۔ اگر معیارہے تو قدرت ضرور آگے بڑھنے کا موقع دیتی ہے۔
بعض لوگ ایک جگہ پر رُ کے رہناچاہتے ہیں اور ایک جگہ ہی ساری زندگی گزار دیتے ہیں۔ جس طرح معیار کا لیول ہوتا ہے اس طرح سکوپ کسی فیلڈ کا نہیں بلکہ انسان کا ہوتا ہے۔ سکوپ قابلیت کا ہوتا ہے۔ اگر ایک شخص انجینئر ہے لیکن قابل نہیں ہے تو اس کا کوئی سکوپ نہیں۔ اگر ایک شخص قابل ہے تو دنیا کا ہر ملک اس کو ویزہ دینے کے لیے تیار ہو گا۔ ہمارا بچہ سمجھتا ہے کہ انجینئرنگ میں مستقبل ہے اس لیے میں انجینئرنگ میں تعلیم حاصل کر لیتا ہوں، حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔مستقبل قابلیت میں ہوتا ہے۔ اپنے اندر قابلیت پیدا کریں ساری دنیا کے دروازے آپ پر کُھلنا شروع ہو جائیں گے۔
یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ طالب علم کوزندگی کا وزڈم دینے کے لیے تعلیمی اداروں میں گیسٹ اسپیکرکاکلچرپیدا ہو رہا ہے۔ اس کلچر سے طلباء اُن لوگوں سے ملتے ہیں جنہوں نے اپنی عملی زندگی میں کامیابیاں حاصل کی ہوتی ہیں اوران کا زندگی کے بارے میں وزڈم زیادہ ہوتا ہے۔اس سے طلباء کو ان کے بارے میں معلوم ہوتاہے کہ یہ لوگ عملی زندگی میں کس طرح کام کر تے اور کامیابیاں حاصل کر تے ہیں۔آج تعلیمی اداروں سے جوبچے پڑھ کر نکل رہے ہیں وہ آج سے بیس سال پہلے والے بچوں سے کئی گنا قابل ہیں۔ ان میں صرف رہنمائی کی کمی ہے،ان کو بتانے والے لوگوں کی کمی ہے، ان کو متاثر کرنے والے لوگ کم ہیں۔ جب کوئی متاثر کرنے والا نہ ہوتو پھر معاشرے میں ناامیدی پیدا ہوجاتی ہے۔’’متاثر کن‘‘ لوگ وہ ہوتے ہیں جو کامیاب ہونے کے بعد ’’پے بیک‘‘ کرتے ہیں۔’’پے بیک‘‘ کا مطلب کامیاب ہونے کے بعد اپنے آبائی علاقے، اپنے تعلیمی ادارے یا دوسروں کو وقت نکال کراپنی خدمات دیناہے۔ وہ لوگ جو کامیاب ہونے کے بعد پے بیک نہیں کرتے وہ بڑے انسان نہیں ہوتے، بلکہ انسان کا ’’عمل‘‘ ثابت کرتا ہے کہ وہ کتنا بڑا انسان ہے۔ وہ تمام لوگ جو کامیاب ہونے کے بعد کہیں نہ کہیں اپنی خدمات سر انجام دے ر ہے ہیں وہ عظیم لوگ ہیں۔ جب اس طرح کی مثا لیں بنتی ہیں تو معاشرے میں شعور پیدا ہوتا ہے اور معاشرہ ترقی کرتا ہے۔

 

قابلیت ہی کامیابی

ہر شخص میں پیدائشی طور پر خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ پیدائشی خوبیاں ٹیلنٹ کے زمرے میں آتی ہیں۔ ایسی تما م چیزیں جن کو سیکھا اور استعمال میں لایا جا سکتا ہے صلاحیتیں کہلاتی ہیں۔ یہ صلاحیتیں پیدائشی نہیں ہوتیں۔ خوش قسمتی یہ ہے کہ پیدائشی طور پر ملنے والی خوبیاں اگرپالش ہو جائیں تو کامیابی ملنا آسان ہوجاتی ہے۔اسی طرح جب انسان کو اپنی صلاحیتوں کا پتہ نہ ہو تو وہ اپنے آپ کو کم تر سمجھنے لگتا ہے ۔ کم تر سمجھنے کی وجہ سے اس کی قوتِ ارادی میں کمی آنا شروع ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں وہ ناکام ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنی صلاحیتوں سے نوازا ہے کہ وہ ایک وقت میں کئی کام کر سکتا ہے۔صلاحیت پیدا کرنے کے تین طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ یہ کہ صلاحیت پیدا کرنے کاشوق ہو۔بہت سے لوگوں میں صلاحیت پیدا کرنے کی خواہش تو ہوتی ہے لیکن اس میں وہ شدت نہیں ہوتی ۔ صلاحیت تب ہی پیدا ہو سکتی ہے جب خواہش شدید ہو۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کیسے سیکھا جائے؟ سیکھنے کے لیے مطالعہ ہو سکتا ہے،انٹرنیٹ سے مددلی جا سکتی ہے،مینٹور سے خدمات لی جا سکتی ہیں، کوچنگ سنٹر سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔صلاحیت پیدا کرنے کاتیسرا طریقہ پریکٹس ہے۔ صلاحیت پیدا کرنے کے بعد پریکٹس سے اس میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ایک نوجوان کے اندر کمانے سے زیادہ سیکھنے کا جذبہ ہونا چاہیے۔ جوانی سیکھنے اور صلاحیت بڑھانے کی عمر ہوتی ہے۔ جوانی میں سیکھا ہوا کام آگے چل کر بڑا نتیجہ دیتا ہے۔
ایک طالب علم تعلیم سے فارغ ہو کر جب عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو اسے بہت سی مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں جو کچھ پڑھایا جا تا ہے اور عملی زندگی میں جن حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان میں مطابقت نہیں پائی جاتی۔ اس کی وجہ تعلیمی اداروں میں پڑھانے وا لوں کا متعلقہ مضامین میں عملی تجربے کا نہ ہونا ہے۔ طلباء کے پاس جی۔ پی۔ اے اور ڈگریاں تو ہوتی ہیں لیکن ان کے پاس وہ وزڈم (wisdom) نہیں ہوتا جو ان کو عملی زندگی میں فائدہ د ے سکے اور ان کی زندگیوں کو بہتر بنا سکے۔ ہمارے ہاں طلباء کو عملی زندگی کا وزڈم دینے اور صلاحیت پیدا کرنے کے لیے مختلف اداروں میں کچھ عرصہ کے لیے انٹرن شپ کرائی جاتی ہے۔ یہ عام طور پر طلباء کے تعلیمی کیرئیر کے آخری سال ہوتے ہیں۔ طالب علموں کو انٹرن شپ سے جوفوائد ملنے چاہیے وہ بھی نہیں مل رہے۔ اس کی وجہ بھی تعلیمی ادارے ہیں جو طلباء کو انٹرن شپ کی صحیح اہمیت نہیں بتاتے۔ جب بچے کو انٹرن شپ کے فوائد معلوم نہیں ہوتے تو وہ اس کو اہمیت نہیں دیتے۔ وہ سرٹیفکیٹ توحاصل کر لیتاہے لیکن سیکھنے والی چیزوں کو سیکھ نہیں پاتا۔ بہت کم بچے ایسے ہوتے ہیں جو انٹرن شپ سے صحیح فوائد حاصل کرتے ہیں۔ جو ادارے انٹرن شپ کرواتے ہیں زیادہ تروہ بھی ذمہ داری قبول نہیں کرتے۔ بہت کم ادارے ایسے ہیں جوانٹرن شپ کے فوائد کو سمجھتے ہیں اس لیے وہ طلباء کو صحیح طریقے سے سکھاتے ہیں اس کے نتیجے میں انہیں اچھی اور قابل افرادی قوّت مل جا تی ہے۔
جا ب کے ساتھ ساتھ صلاحیتوں کو نکھارتے رہنا چاہیے۔صلاحیتیں پیدا کرنے کے لیے وقت چاہیے۔ وقت بچانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس مینٹور(Mentor) سے سیکھا جائے جس نے مشکلات کاسامنا کرنے کے باوجود کامیابی حاصل کی ہو۔ اس مینٹورمیں دو شرطیں ہونی چاہئیں۔ ایک یہ کہ وہ مخلص ہو اور دوسرا وہ قابل ہو۔اگر وہ خود ناامید ہے اور ڈیپریس رہتا ہے تو وہ بچوں کو بھی ناامید کر دے گا۔ زمانہ جدید میں کامیابی اور ناکامی دونوں کی رفتار بہت تیز ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ ایک شخص کو کامیاب ہونے کے لیے پندرہ سے بیس سال چاہئیں جبکہ آ ج وہی کامیابی پانچ سالوں میں ممکن ہو گئی ہے۔ٹیکنالوجی کی وجہ سے ایک وقت میں کئی کام کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ اگر کوئی قابل ہے اور باصلاحیت بھی تو اس کو کسی ٹی وی چینل کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ خود سوشل میڈیا پر اپنا چینل بنائے اور اپنی ویڈیوز اپ لوڈ کرے ۔کامیابی خودبخود اس کے پیچھے آئے گی۔کام کا لیول نہیں ہوتا ،معیار کا لیول ہوتا ہے۔ اگر معیارہے تو قدرت ضرور آگے بڑھنے کا موقع دیتی ہے۔
بعض لوگ ایک جگہ پر رُ کے رہناچاہتے ہیں اور ایک جگہ ہی ساری زندگی گزار دیتے ہیں۔ جس طرح معیار کا لیول ہوتا ہے اس طرح سکوپ کسی فیلڈ کا نہیں بلکہ انسان کا ہوتا ہے۔ سکوپ قابلیت کا ہوتا ہے۔ اگر ایک شخص انجینئر ہے لیکن قابل نہیں ہے تو اس کا کوئی سکوپ نہیں۔ اگر ایک شخص قابل ہے تو دنیا کا ہر ملک اس کو ویزہ دینے کے لیے تیار ہو گا۔ ہمارا بچہ سمجھتا ہے کہ انجینئرنگ میں مستقبل ہے اس لیے میں انجینئرنگ میں تعلیم حاصل کر لیتا ہوں، حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔مستقبل قابلیت میں ہوتا ہے۔ اپنے اندر قابلیت پیدا کریں ساری دنیا کے دروازے آپ پر کُھلنا شروع ہو جائیں گے۔
یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ طالب علم کوزندگی کا وزڈم دینے کے لیے تعلیمی اداروں میں گیسٹ اسپیکرکاکلچرپیدا ہو رہا ہے۔ اس کلچر سے طلباء اُن لوگوں سے ملتے ہیں جنہوں نے اپنی عملی زندگی میں کامیابیاں حاصل کی ہوتی ہیں اوران کا زندگی کے بارے میں وزڈم زیادہ ہوتا ہے۔اس سے طلباء کو ان کے بارے میں معلوم ہوتاہے کہ یہ لوگ عملی زندگی میں کس طرح کام کر تے اور کامیابیاں حاصل کر تے ہیں۔آج تعلیمی اداروں سے جوبچے پڑھ کر نکل رہے ہیں وہ آج سے بیس سال پہلے والے بچوں سے کئی گنا قابل ہیں۔ ان میں صرف رہنمائی کی کمی ہے،ان کو بتانے والے لوگوں کی کمی ہے، ان کو متاثر کرنے والے لوگ کم ہیں۔ جب کوئی متاثر کرنے والا نہ ہوتو پھر معاشرے میں ناامیدی پیدا ہوجاتی ہے۔’’متاثر کن‘‘ لوگ وہ ہوتے ہیں جو کامیاب ہونے کے بعد ’’پے بیک‘‘ کرتے ہیں۔’’پے بیک‘‘ کا مطلب کامیاب ہونے کے بعد اپنے آبائی علاقے، اپنے تعلیمی ادارے یا دوسروں کو وقت نکال کراپنی خدمات دیناہے۔ وہ لوگ جو کامیاب ہونے کے بعد پے بیک نہیں کرتے وہ بڑے انسان نہیں ہوتے، بلکہ انسان کا ’’عمل‘‘ ثابت کرتا ہے کہ وہ کتنا بڑا انسان ہے۔ وہ تمام لوگ جو کامیاب ہونے کے بعد کہیں نہ کہیں اپنی خدمات سر انجام دے ر ہے ہیں وہ عظیم لوگ ہیں۔ جب اس طرح کی مثا لیں بنتی ہیں تو معاشرے میں شعور پیدا ہوتا ہے اور معاشرہ ترقی کرتا ہے۔

MASHALLAH
 
Top