• To make this place safe and authentic we allow only registered members to participate. Advertising and link posting is not allowed, For Advertising contact admin.

الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو محفوظ کیسے بنایا جاسکتا ہے؟ رحیم جمالی

raheemjamali

New Member
461
ان دنوں ہم اگر قومی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو ہمیں احساس ہوگا کہ سب سے اہم خبر یہ ہے کہ حکومت پاکستان الیکشن اصلاحات چاہتی ہے اور حکومت کے لیے سب سے اہم مہرہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین ہے۔ حکومتی مشکلات میں اضافہ تب ہوا جب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال مسترد کردیا۔

الیکشن کمیشن نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں جنرل الیکشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے معاملے پر 37 اعتراضات اٹھائے ہیں اور اس ضمن میں ایک تفصیلی رپورٹ سینٹ کی قائمہ کمیٹی میں جمع کرائی ہے۔

آئیں رپورٹ کے کچھ حصوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں چونکہ مفصل رپورٹ پبلک نہیں ہوئی اس لئے صرف اس کے چیدہ نکات پر بحث کرونگا۔

پہلا اعتراض: رپورٹ میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے تکنیکی پہلوؤں کو زیر بحث لاکر الیکشن کمیشن نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حکومت پاکستان کے تیار کردہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے آئین کے مطابق آزادانہ، شفاف اور قابل اعتماد انتخابات نہیں ہو سکتے ہیں کیوں کہ یہ ہیک ہوسکتی ہے اور مشین میں باآسانی چھیڑ کار کر اسے ٹیمپر کیا جا سکتا ہے اور اس کا سافٹ ویئر آسانی سے بدلا جا سکتا ہے۔

:جواب

الیکٹرانک ووٹنگ مشینز میں چند بنیادی تبدیلیاں کرکے دونوں اعتراضات کا جواب دیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم ووٹنگ مشین کے اندر ایک کمپیوٹر لگائیں جیسے کہ ریسبری پائے (Rasberry Pi) اور انڈورائڈ ٹیبلیٹ (Android Tablet) وغیرہ تو اس کے اندر لینکس آپریٹنگ سسٹم (Linux) اور دخل اندازی کی روک تھام کے نظام کا سافٹ ویئر (Intrusion Prevention Software) استعمال کرکے غیر قانونی طور پر مشین میں تبدیلی کو روکا جاسکتا ہے اور ہیکنگ کی کسی بھی کوشش کی صورت میں مشین الیکشن کمیشن کو خودکار طور پر آگاہ کرے گا اور ووٹنگ کا عمل اسی وقت بند کردیا جائے گا۔

دوسرا اعتراض: الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ مشین الیکشن فراڈ نہیں روک سکتی ہے اور ریاستی اختیارات کا غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سے نہ بیلٹ بھرنے کو نہ ہی ووٹ کی خرید و فروخت کو روکا جاسکتا ہے۔

:جواب

اگر ووٹنگ مشین بیلٹ پیپر چھاپتے ہوئے ایک خفیہ کوڈ بیلٹ پیپر پر چھاپ دے تو بیلٹ باکس بھرنے کا بھی کوئی فایدہ نہیں ہوگا کیونکر رزلٹ چیلنج ہونے کی صورت میں اگر عدالتی حکم پر بیلٹ پیپرز کو دوبارہ پرکھا جائے گا تو جعلی پیپرز کی نشاندھی آسان اور سہل ہو جائے گی۔

تیسرا اعتراض: الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں نہ ووٹ کی کوئی سیکریسی ہے اور نہ ووٹ ڈالنے والے کی ہے۔

:جواب

ووٹنگ مشین کے بغیر آج کل پاکستان کے الیکشنز میں جو طریقہ کار رائج ہے اس کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ووٹر اور ووٹ کی سیکریسی نہیں اور الیکشن کا عمل غیر آئینی ہے۔ بلیٹ پیپر پر ووٹر کے انگھوٹے کے نشان موجود ہوتے ہیں فرانزک کرکے سادہ بیلٹ پیپر سے بھی ووٹر کو پہچانا جاسکتا ہے۔

چوتھا اعتراض: شفافیت کا فقدان، انتخابات سے قبل ٹیسٹنگ کا وقت بھی میسر نہیں، اسٹیک ہولڈرز متفق نہیں، عوام کو ووٹنگ مشین پر اعتماد نہیں اور نہ ہی ملک بھر کے لیے فنڈنگ دستیاب ہیں۔

:جواب

شفافیت کے فقدان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کی وضاحت نہیں کی گئی۔ دوسری طرف الیکشن سے قبل دو سال کا وقت میسر ہے اس لئے یہ اعتراض محض وقت ضائع کرنا ہے کہ وقت کی قلت ہے۔ اسٹیک ہولڈرز کا متفق ہونا ضروری نہیں، کیونکہ قانونی طور پر الیکشن کمیشن پارلیمان کے ماتحت ہے اور اس کے قوانین پر عمل درآمد کرنے کی پابند ہے۔ ووٹنگ مشین پر عوام کی رائے الیکشن کمیشن نے کیسے حاصل کی؟ کیا کوئی ریفرنڈم کیا گیا؟ جواب ہے نہیں۔

پانچواں اعتراض: الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر بیلٹ پیپر کی مناسب رازداری نہیں رہے گی اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے ووٹر کی شناخت گمنام نہیں رہے گی۔

:جواب

جیسے کہ بیلٹ پیپر پرنٹ ہوتا ہے اور خفیہ کوڈ کی جو میری تجویز ہے دونوں کو دیکھا جائے تو عدالتی حکم کے بغیر بیلٹ پیپر سے ووٹر کی شناخت ناممکن ہوگی۔ سوفٹویئر کا سورس کوڈ (Source Code) اگر حکومت پبلک کردے تو عوام اور سیکورٹی ماہرین کے اس ضمن میں خدشات دور ہو جائیں گے۔

چھٹا اعتراض: الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر دیکھا نہیں جاسکتا ہے۔ ای وی ایم کس کی تحویل میں رہیں گی؟ اس حوالے سے بھی کچھ نہیں بتایا جارہا ہے۔

جواب:

الیکشن کمیشن کا ماڈل اور سوفٹویئر جیسے کہ میری تجویز کے مطابق پبلک (Open source) ہوگا تو میرا نہیں خیال اس سے شک کی کوئی گنجائش رہے گی۔

ساتواں اعتراض: ای سی پی نے کہا کہ ای وی ایم کے استعمال سے کم از کم خرچہ 150ارب روپے آئے گا لیکن کثیر رقم خرچ کرنے کے باوجود الیکشن کی شفافیت اور ساکھ مشکوک رہے گی۔

جواب:

بھارت اور دیگر ممالک میں بھی ووٹنگ مشینز کا استعمال کیا جارہا ہے، اس لئے یہ اعتراض قابل قبول نہیں۔

آٹھواں اعتراض: الیکشن کمیشن نے اعتراض میں کہا ہے کہ ویئر ہاؤس اورٹرانسپورٹیشن میں مشینوں کے سافٹ ویئر تبدیل کیے جا سکتے ہیں اور بلیک باکس میں شفافیت پر سوال اٹھ سکتا ہے۔

جواب:

جس وقت مشین آن ہوگی اس میں موجود سم کارڈ جی ایس ایم سسٹم (GSM) کا استعمال کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو اپنے سوفٹویئر اور ہارڈویئر کی سلامتی اور انٹیگریٹی رپورٹ کرے گا (Software Integrity Report) اور سسٹم میں موجود چیک سم (Software Checksums) کو الیکشن کمیشن کے سسٹم میں موجود چیک سم (Checksum) سے موازنہ کرے گا اور میچ کرنے کی صورت میں الیکشن مشین اپنا کام شروع کرے گا اور الیکشن عمل کے اختتام تک کا لاگ (System Log) بنائے گا اور تمام بٹنز وغیرہ اور بیرونی آلات جیسے کہ بیلٹ پرنٹر، چارجر، اور بایومیٹرک سینسر وغیرہ کی معلومات بھی اس لاگ میں رکھے گا۔ الیکشن کے اختتام پر ووٹنگ مشین دوبارہ اپنے چیک سم (Checksum) الیکشن کمیشن کو رپورٹ کرے گا اور لاگ کی کاپی بھیجے گا۔ اس دوران ہیکنگ کی کسی بھی کوشش کی صورت میں مشین الیکشن کمیشن کو مطلع کرے گا اور خودکار طریقے سے الیکشن کے عمل کو روک دے گا۔

نواں اعتراض: ای سی پی نے کہا ہے کہ ہر جگہ پر مشین کے استعمال کی صلاحیت پر سوال آسکتا ہے۔ اس کے علاوہ مشین کی منتقلی اور حفاظت پر سوالات ہوں گے۔

جواب:

میری تجاویز سے بنائی جانے والی مشین ہر اس جگہ پر کام کرے گا جہاں موبائل فون کے سگنل موجود ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ دور دراز علاقوں میں سیٹلائٹ فون کا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔ مشین کی منتقلی کا کام کسی بینک کو دیا جاسکتا ہے۔

دسواں اعتراض: اتنی زیادہ مشینوں سے ایک روز میں انتخابات کرانا ممکن نہیں ہوگا، ووٹر کی تعلیم اور ٹیکنالوجی بھی رکاوٹ بنے گی جب کہ ای وی ایم پر اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہے۔

جواب:

ووٹر کی تعلیم ایک مشکل عمل ہے اور غیر تعلیم یافتہ افراد کے لیے پہلی دفعہ مشین کا استعمال ایک مشکل اور دشوار تجربہ ہوسکتا ہے لیکن شفاف انتخابات کے آئینی فریضے کے لیے یہ اہم ترین حیثیت رکھتا ہے۔الیکشن کمیشن کو ووٹنگ مشینز چلانے کے لئے عملے کی وہی تعداد چاہیے ہوگی جو پہلے مینول سسٹم میں درکار ہے۔ کچھ ماہ کی تکنیکی تربیت سے اضافی تکنیکی اسٹاف کو بھی لایا جاسکتا ہے۔

گیارواں اعتراض: ای سی پی نے کہا ہے کہ عین وقت عدالتی حکم سے بیلٹ میں تبدیلی ہوجاتی ہے تو اس وقت مشکل پیش آئے گی۔

:جواب

الیکشن کے دن سے قبل ایک مقررہ تاریخ تک الیکشن سے متعلق تمام مقدمات کو نمٹانے کی شق الیکشن ایکٹ میں شامل کی جاسکتی ہے جس کے بعد بیلٹ میں تبدیلی نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ چونکہ یہ الیکٹرانک مشین ہے اس میں الیکشن سے قبل ہنگامی تبدیلیوں کا آپشن بھی رکھا جاسکتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

بارواں اعتراض : رپورٹ کے مطابق ای وی ایم سے نتائج میں تاخیر ہوسکتی ہے ۔جس کی وجہ سے میڈیا، این جی اوز اور سول سوسائٹی کو بداعتمادی ہوسکتی ہے۔

:جواب

چونکہ ووٹنگ مشین الیکشن کے عمل کے اختتام پر الیکشن کمیشن کو ایک ہسٹری یا سسٹم لاگ (System log) بھیجے گا تو الیکشن کمیشن کے علم میں آجائے گا کہ کس پولنگ اسٹیشن پر پولنگ کا عمل اختتام پذیر ہوگیا ہے اور کس وقت اختتام پذیر ہوا ہے بعد ازاں نتائج میں تاخیر پر مذکورہ آفیسر سے پوچھ گچھ کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ پولنگ کے عمل کے شروع ہونے اور اختتام پذیر ہونے کا ڈیٹا پبلک کو ایک اینڈرایڈ ایپلی کیشن (Andriod app) کے ذریعے براہ راست بھی دیا جاسکتا ہے تاکہ وہ پولنگ کے عمل کا جائزہ لے سکیں۔

تیرہواں اعتراض: مشینوں کی کسی وجہ سے مرمت الیکشن دھاندلی کا باعث بن سکتی ہے تو کیسے یقین کر لیں کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین ایماندارانہ ہے؟

جواب: چونکہ ووٹنگ مشین ایک کمپیوٹر ہوگا اس لئے اس میں کسی بھی سوفٹویئر کی تبدیلی یا ہیکنگ کو معلومات الیکشن کمیشن کو بہم پہنچ جائے گی اور ہارڈویئر سائد میں کسی بھی پرزے کو تبدیل کرنے سے بھی مشین خودکار طور پر الیکشن کمیشن کو آگاہ کرے گا۔ الیکشن کمیشن کے ڈیٹا بیس میں چیک سم (Checksum) ڈیٹا میچ نہ ہونے کی صورت میں پولنگ کا عمل شروع ہی نہیں ہوگا اور یوں مشین کسی بھی غیر قانونی تبدیلی یا مرمت سے بے کار ہو جائے گی۔

میرا خیال ہے کہ ان تمام تجاویز سے ہم ایک ایسی مشین بنا سکتے ہیں جو سب کو قابل قبول ہو۔

 
Top