• To make this place safe and authentic we allow only registered members to participate. Advertising and link posting is not allowed, For Advertising contact admin.

Information احساسِ گناہ

احساسِ گناہ

دنیا کا کوئی میڈیکل ٹیسٹ، ایکسرے اور الٹرا ساؤنڈ اس بیماری کی تشخیص نہیں کرسکتا کیونکہ یہ بیماری جسمانی نہیں ہے۔ ماہرین نفسیات اس کو ذہنی بیماری قرار دیتے ہیں لیکن یہ ذہن کے ساتھ
ساتھ روح کو بھی کھا جاتی ہے۔ اس بیماری کا نام ہے احساسِ گناہ ۔ا سے گِلٹ بھی کہتے ہیں۔ تقریباً ہر انسان کو اس بیماری کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ہر انسان اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور یہ بیماری دیمک کی طرح اندر ہی اندر اس کو چاٹتی رہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ بیماری ہمیں اپنا شکار کیسے بنا لیتی ہے؟ اس کا جواب ہے کہ ہم سب اپنے آپ کو جانچنے اور ماپنے کے معیار بناتے ہیں اور جب ہم اس پر پورا نہیں اُترتے تو ہم اپنی نظروں کے سامنے ہی مجرم بن جاتے ہیں۔ یہ احساسِ جرم ہمیں ہماری نگاہوں میں ہی گرا دیتا ہے اور ہماری ساری شخصیت تباہ ہوجاتی ہے۔ آئیے پہلے یہ جانیں کہ اپنے آپ کو ماپنے کے معیار کیسے بنتے ہیں؟

اینتھرا پالوجی (بشریات)انسان کے روّیوں اور مزاج کا علم ہے۔یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ’’سیکھنا‘‘ ہماری جبلت میں شامل ہے۔ہم شعوری یا لاشعوری طور پر علم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ علم درست بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی لیکن ہم اپنے سیکھے ہوئے غلط علم کو بھی درست سمجھ رہے ہوتے ہیں اور اس عمل کے نتیجے میں ایک مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ہماری زندگی میں سیکھا ہوا علم، ایسے جملے جن سے ہم متاثر ہوں اور ایسی باتیں جو ہم نے کسی ایسے شخص سے سنی ہوئی ہوں، جس سے ہم متاثر ہیں…یہ سب کچھ ہمارے عقائد کو جنم دیتا ہے اور ہمارے عقائد، وہ معیار اور اُصول بنا دیتے ہیں جن سے ہم نے خودکو اور دوسروں کو پرکھنا اور جانچنا ہوتا ہے۔ معیار اور ُاصولوں کو بنانے والا علم عموماًچار ذرائع سے حاصل ہوتا ہے۔

ہمارے علم کا پہلا ذریعہ ہمارے والدین ہوتے ہیں۔ والد اور والدہ میں سے والدہ کا کردار اور علم ہمیں زیادہ متاثر کرتا ہے۔ کیوںکہ ہم دنیا کی واحد مخلوق ہیں جس کو اپنی والدہ کے ساتھ کافی زیادہ وقت گزارنا ہوتا ہے۔ ہماری زندگی کے ابتدائی ایام کا سہارا ہمارے والدین ہوتے ہیں۔ اس لیے ہم ان پر بھروسہ بھی کرتے ہیں اور ان کے بتائے اور سمجھائے ہوئے علم پر بھی مکمل یقین کرلیتے ہیں۔ والدین کا ادب و احترام اپنی جگہ لیکن لازمی نہیں کہ ان کا علم اور آگہی بھی قابل قبول ہو۔ یاد رکھیے علم آسانی پیدا کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جہالت مشکلات اور پریشانیوں کو جنم دیتی ہے۔ بے شمار لوگ جس گلٹ کا شکار ہوتے ہیں وہ زندگی کے ابتدائی ایام کے سیکھے ہوئے علم کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ گلٹ ان کی زندگی کا سب سے وزنی بوجھ بن کر ان کی ذات اور صلاحیتوں کو دبادیتا ہے ۔ ماہرین ِنفسیات کے بقول اس گِلٹ کو مینج(Manage) کرنا تھوڑا سا مشکل ہوتا ہے۔

ہماری زندگی کا دوسرا علم سوسائٹی اور معاشرے سے جڑا ہوتا ہے۔ ہم سب کے سوشل سرکل مختلف ہوتے ہیں اور یہ سرکلز ہمارے علم میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ علاقہ ومحلہ،شہر اور ملک سب کے اپنے اپنے طور طریقے اور رواج ہوتے ہیں ۔ ان سے حاصل کیا گیا علم بھی ہمیں معیارات اور اصول دے دیتا ہے۔ یہ اصول ہمیں پرکھنے اور آزمانے پر اُکساتے ہیں اور جب ہم خود کو پرکھتے ہیں تو اگر ہم ان پر پورا نہیں اترتے تو اس کے نتیجے میں ہم گلٹ یا احساسِ گناہ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بعض اوقات ہم ارد گرد کے لوگوں کے طنز اور مذاق سے گلٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہم دوسروں کے کہے ہوئے جھوٹ اور منفی جملوں سے خود کو مجرم سمجھنے لگتے ہیں اور یہ عمل ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔
ہمارا دین ہماری زندگی میں علم کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ہم بچپن میں قرآن پاک عربی میں پڑھتے ہیں اور اس کا ترجمہ نہیں پڑھتے۔ اس سے قرآن کریم کا اصل مفہوم ہم تک نہیں پہننچتا۔ ہم میں سے اکثر نے حدیثیں اتنی ہی پڑھی ہوتی ہیں جتنی دینیات کی کتاب میں لکھی ہوتی ہیں اور ان کو بھی ہم پرچے میں پاس ہونے کے لیے یاد کرتے ہیں۔ ہم قرآن و حدیث کا مطالعہ خود کرنے کی بجائے جمعہ کے خطبہ پر مکمل بھروسہ کرلیتے ہیں اور اس طرح اسلام کا ادھورا علم ہماری ذات کے ادھورے پن میں بدل جاتا ہے۔ اگر ہمیں ’’موت کا منظر‘‘ اور ’’مرنے کے بعد کیا ہوگا؟‘‘ کا زیادہ علم ہوجائے تو خدا تعالیٰ کا رحمان اور رحیم ہونا بھول جاتا ہے۔ تصوّرِ رحمت پر یقین نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے اندر ایک خوفناک گلٹ پیدا ہوجاتا ہے۔ جو ہمیں ایک ہی دفعہ مارنے کی بجائے روز اندر ہی اندر ہمارا گلا دباتا رہتا ہے۔

یہ ایک سنجیدہ سوال ہے کہ ہمیں گناہ کرتے ہوئے شرم نہیں آتی اور توبہ کرتے ہوئے ہم شرم کیوں محسوس کرتے ہیں؟
ہم روز ٹی وی دیکھتے اور اخبار پڑھتے ہیں ۔ اکثر اوقات دیواروں پر لگے ہوئے اشتہار بھی پڑھ لیتے ہیں۔ ٹی وی، اخبار اور دیوار پر لگے اشتہار کو بنایا ہی ایسے جاتا ہے کہ دیکھنے والا متاثر ہو۔ یہ سب کچھ’خریدار‘ پیدا کرنے کے لیے ہوتا ہے اور ہم نہ صرف خریدار بنتے ہیں بلکہ ایک اچھا ’’شکار‘‘ بھی بن جاتے ہیں۔ علم کا یہ ذریعہ ہمارے معیار اور پیمانوں کو بدل دیتا ہے۔ ہم بسا اوقات سگریٹ پینے کو اعزاز سمجھتے ہیں اور خالص دودھ پینے کو بیماری کا ذریعہ ۔ اس طرح لاشعوری طور پر ہم کئی طرح کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ میڈیا لوگوں کے سوچنے کے انداز کو متاثر کرتا ہے۔ آپ کی شرافت آپ کے گلٹ کا سبب بن جاتی ہے کیوںکہ آپ میڈیا کے دئیے گئے ’’ڈان کلچر‘‘ پر پورے نہیں اُتر رہے ہوتے۔

علم کے ان ذرائع کو جاننے کے بعد اس حقیقت کو سامنے رکھیے کہ ہمارا ’’سیکھا ہوا علم غلط اور اَدھورا ہوسکتا ہے۔‘‘ ہمیں اپنے علم کو پرکھنے اور جانچنے کے لیے بھی علم کی ضرورت ہوتی ہےاور یہ گنجائش ہمارا مسئلہ حل کردیتی ہے۔زندگی میں ہر چیز کے لیے گنجائش ضرور رکھیں ،کیوںکہ انسان کی ہر چیز میں اصلاح اور ترقی کی گنجائش بہر حال رہتی ہے اور ترقی وہی کرتا ہے جو اپنی ذات اور اپنی معلومات پر سوال اٹھائے اور غیر جانبدار ہوکر سوچے کہ کیا میرے پاس موجود نظریات و افکار حقیقت کے مطابق ہیں یا غیر مطابق،تاکہ بعد وہ میں احساسِ گنا ہ کا سبب نہ بنے۔​
 

Ali Raza liaqat

Administrator
احساسِ گناہ

دنیا کا کوئی میڈیکل ٹیسٹ، ایکسرے اور الٹرا ساؤنڈ اس بیماری کی تشخیص نہیں کرسکتا کیونکہ یہ بیماری جسمانی نہیں ہے۔ ماہرین نفسیات اس کو ذہنی بیماری قرار دیتے ہیں لیکن یہ ذہن کے ساتھ
ساتھ روح کو بھی کھا جاتی ہے۔ اس بیماری کا نام ہے احساسِ گناہ ۔ا سے گِلٹ بھی کہتے ہیں۔ تقریباً ہر انسان کو اس بیماری کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ہر انسان اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور یہ بیماری دیمک کی طرح اندر ہی اندر اس کو چاٹتی رہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ بیماری ہمیں اپنا شکار کیسے بنا لیتی ہے؟ اس کا جواب ہے کہ ہم سب اپنے آپ کو جانچنے اور ماپنے کے معیار بناتے ہیں اور جب ہم اس پر پورا نہیں اُترتے تو ہم اپنی نظروں کے سامنے ہی مجرم بن جاتے ہیں۔ یہ احساسِ جرم ہمیں ہماری نگاہوں میں ہی گرا دیتا ہے اور ہماری ساری شخصیت تباہ ہوجاتی ہے۔ آئیے پہلے یہ جانیں کہ اپنے آپ کو ماپنے کے معیار کیسے بنتے ہیں؟

اینتھرا پالوجی (بشریات)انسان کے روّیوں اور مزاج کا علم ہے۔یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ’’سیکھنا‘‘ ہماری جبلت میں شامل ہے۔ہم شعوری یا لاشعوری طور پر علم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ علم درست بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی لیکن ہم اپنے سیکھے ہوئے غلط علم کو بھی درست سمجھ رہے ہوتے ہیں اور اس عمل کے نتیجے میں ایک مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ہماری زندگی میں سیکھا ہوا علم، ایسے جملے جن سے ہم متاثر ہوں اور ایسی باتیں جو ہم نے کسی ایسے شخص سے سنی ہوئی ہوں، جس سے ہم متاثر ہیں…یہ سب کچھ ہمارے عقائد کو جنم دیتا ہے اور ہمارے عقائد، وہ معیار اور اُصول بنا دیتے ہیں جن سے ہم نے خودکو اور دوسروں کو پرکھنا اور جانچنا ہوتا ہے۔ معیار اور ُاصولوں کو بنانے والا علم عموماًچار ذرائع سے حاصل ہوتا ہے۔

ہمارے علم کا پہلا ذریعہ ہمارے والدین ہوتے ہیں۔ والد اور والدہ میں سے والدہ کا کردار اور علم ہمیں زیادہ متاثر کرتا ہے۔ کیوںکہ ہم دنیا کی واحد مخلوق ہیں جس کو اپنی والدہ کے ساتھ کافی زیادہ وقت گزارنا ہوتا ہے۔ ہماری زندگی کے ابتدائی ایام کا سہارا ہمارے والدین ہوتے ہیں۔ اس لیے ہم ان پر بھروسہ بھی کرتے ہیں اور ان کے بتائے اور سمجھائے ہوئے علم پر بھی مکمل یقین کرلیتے ہیں۔ والدین کا ادب و احترام اپنی جگہ لیکن لازمی نہیں کہ ان کا علم اور آگہی بھی قابل قبول ہو۔ یاد رکھیے علم آسانی پیدا کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جہالت مشکلات اور پریشانیوں کو جنم دیتی ہے۔ بے شمار لوگ جس گلٹ کا شکار ہوتے ہیں وہ زندگی کے ابتدائی ایام کے سیکھے ہوئے علم کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ گلٹ ان کی زندگی کا سب سے وزنی بوجھ بن کر ان کی ذات اور صلاحیتوں کو دبادیتا ہے ۔ ماہرین ِنفسیات کے بقول اس گِلٹ کو مینج(Manage) کرنا تھوڑا سا مشکل ہوتا ہے۔

ہماری زندگی کا دوسرا علم سوسائٹی اور معاشرے سے جڑا ہوتا ہے۔ ہم سب کے سوشل سرکل مختلف ہوتے ہیں اور یہ سرکلز ہمارے علم میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ علاقہ ومحلہ،شہر اور ملک سب کے اپنے اپنے طور طریقے اور رواج ہوتے ہیں ۔ ان سے حاصل کیا گیا علم بھی ہمیں معیارات اور اصول دے دیتا ہے۔ یہ اصول ہمیں پرکھنے اور آزمانے پر اُکساتے ہیں اور جب ہم خود کو پرکھتے ہیں تو اگر ہم ان پر پورا نہیں اترتے تو اس کے نتیجے میں ہم گلٹ یا احساسِ گناہ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بعض اوقات ہم ارد گرد کے لوگوں کے طنز اور مذاق سے گلٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہم دوسروں کے کہے ہوئے جھوٹ اور منفی جملوں سے خود کو مجرم سمجھنے لگتے ہیں اور یہ عمل ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔
ہمارا دین ہماری زندگی میں علم کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ہم بچپن میں قرآن پاک عربی میں پڑھتے ہیں اور اس کا ترجمہ نہیں پڑھتے۔ اس سے قرآن کریم کا اصل مفہوم ہم تک نہیں پہننچتا۔ ہم میں سے اکثر نے حدیثیں اتنی ہی پڑھی ہوتی ہیں جتنی دینیات کی کتاب میں لکھی ہوتی ہیں اور ان کو بھی ہم پرچے میں پاس ہونے کے لیے یاد کرتے ہیں۔ ہم قرآن و حدیث کا مطالعہ خود کرنے کی بجائے جمعہ کے خطبہ پر مکمل بھروسہ کرلیتے ہیں اور اس طرح اسلام کا ادھورا علم ہماری ذات کے ادھورے پن میں بدل جاتا ہے۔ اگر ہمیں ’’موت کا منظر‘‘ اور ’’مرنے کے بعد کیا ہوگا؟‘‘ کا زیادہ علم ہوجائے تو خدا تعالیٰ کا رحمان اور رحیم ہونا بھول جاتا ہے۔ تصوّرِ رحمت پر یقین نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے اندر ایک خوفناک گلٹ پیدا ہوجاتا ہے۔ جو ہمیں ایک ہی دفعہ مارنے کی بجائے روز اندر ہی اندر ہمارا گلا دباتا رہتا ہے۔

یہ ایک سنجیدہ سوال ہے کہ ہمیں گناہ کرتے ہوئے شرم نہیں آتی اور توبہ کرتے ہوئے ہم شرم کیوں محسوس کرتے ہیں؟
ہم روز ٹی وی دیکھتے اور اخبار پڑھتے ہیں ۔ اکثر اوقات دیواروں پر لگے ہوئے اشتہار بھی پڑھ لیتے ہیں۔ ٹی وی، اخبار اور دیوار پر لگے اشتہار کو بنایا ہی ایسے جاتا ہے کہ دیکھنے والا متاثر ہو۔ یہ سب کچھ’خریدار‘ پیدا کرنے کے لیے ہوتا ہے اور ہم نہ صرف خریدار بنتے ہیں بلکہ ایک اچھا ’’شکار‘‘ بھی بن جاتے ہیں۔ علم کا یہ ذریعہ ہمارے معیار اور پیمانوں کو بدل دیتا ہے۔ ہم بسا اوقات سگریٹ پینے کو اعزاز سمجھتے ہیں اور خالص دودھ پینے کو بیماری کا ذریعہ ۔ اس طرح لاشعوری طور پر ہم کئی طرح کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ میڈیا لوگوں کے سوچنے کے انداز کو متاثر کرتا ہے۔ آپ کی شرافت آپ کے گلٹ کا سبب بن جاتی ہے کیوںکہ آپ میڈیا کے دئیے گئے ’’ڈان کلچر‘‘ پر پورے نہیں اُتر رہے ہوتے۔

علم کے ان ذرائع کو جاننے کے بعد اس حقیقت کو سامنے رکھیے کہ ہمارا ’’سیکھا ہوا علم غلط اور اَدھورا ہوسکتا ہے۔‘‘ ہمیں اپنے علم کو پرکھنے اور جانچنے کے لیے بھی علم کی ضرورت ہوتی ہےاور یہ گنجائش ہمارا مسئلہ حل کردیتی ہے۔زندگی میں ہر چیز کے لیے گنجائش ضرور رکھیں ،کیوںکہ انسان کی ہر چیز میں اصلاح اور ترقی کی گنجائش بہر حال رہتی ہے اور ترقی وہی کرتا ہے جو اپنی ذات اور اپنی معلومات پر سوال اٹھائے اور غیر جانبدار ہوکر سوچے کہ کیا میرے پاس موجود نظریات و افکار حقیقت کے مطابق ہیں یا غیر مطابق،تاکہ بعد وہ میں احساسِ گنا ہ کا سبب نہ بنے۔​
great
 
Top